فروری 2025 کی سہ پہر، ایک عام دن، مسز آیینہ کے لیے ایک ناقابل فراموش 3
،آزمائش میں بدل گیا۔ قسمت نے انہیں ایک ایسا امتحان دیا جس میں ناقابل تصور درد
بہادری اور قربانی شامل تھی۔ جو ایک عام دن کے طور پر شروع ہوا تھا، وہ بیہی
باغ، کولگام میں ایک بھیانک خواب میں بدل گیا جب دہشت گردوں کے ایک حملے
نے نہ صرف ان کے جسم پر زخم چھوڑے بلکہ ایک ایسی وراثت بھی چھوڑی جو
ہمت، استقالل، اور مادر وطن سے وابستگی کی مثال بن گئی۔ ان کی کہانی جاننے
والے ہر شخص کے دل میں وہ کشمیر کی سب سے بہادر خواتین میں شمار ہونے
لگیں۔
پہلی گولی کی آواز نے سکون کو چیر کر رکھ دیا، جیسے موت کی سرگوشی ہو۔ ایک
،گولی آیینہ کی بائیں ران سے گزر گئی، ناقابل برداشت درد کی لہریں اٹھنے لگیں
خون نے ان کے کپڑوں کو بھگو دیا، مگر اس لمحے میں انہوں نے اپنی جان کی نہیں
بلکہ اپنے شوہر، نائیک منظور احمد، اپنی 14 سالہ بھتیجی سانیہ، اور گھر کے اندر
موجود اپنی دو بیٹیوں کی فکر کی، جو اس خوفناک منظر سے بے خبر تھیں۔
آنکھوں میں آنسو ضرور تھے، مگر دل میں خوف کے لیے کوئی جگہ نہ تھی۔ محبت
کا جذبہ درد سے زیادہ طاقتور ثابت ہوا۔ آیینہ نے اپنے شوہر اور بھتیجی کو اپنے جسم
سے ڈھانپ لیا تاکہ انہیں گولیوں کی بارش سے بچایا جا سکے۔ ان کے پاس کوئی
ہتھیار نہ تھا، کوئی زرہ نہ تھی— بس ایک بیوی اور ماں کی قوت تھی جو اپنی فیملی
کو بچانے کے لیے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر مقابلہ کر رہی تھی۔
لیکن ان کی جنگ صرف دہشت گردوں سے نہیں تھی، بلکہ اپنے اندر کے درد، اپنے
پیاروں کو کھونے کے خوف اور ان کے مستقبل کے لیے بھی تھی۔ زخم سے خون بہہ
رہا تھا، مگر انہوں نے اپنے شوہر منظور احمد، جو کہ ایک ریٹائرڈ بھارتی فوجی
تھے، سے اپنی تکلیف چھپائی۔ وہ جانتی تھیں کہ اگر منظور کو ان کی حالت کا اندازہ
ہو گیا تو وہ دفاع کے بجائے ان کی فکر میں مبتال ہو جائیں گے اور ان کے بچنے
کے امکانات کم ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنی تکلیف کو برداشت کیا، ہونٹوں
کو سختی سے بھینچ لیا تاکہ درد کی کوئی آواز نہ نکلے، اور اپنے خاندان کو بچانے
کا پختہ عزم برقرار رکھا۔
دہشت گرد کسی کو زندہ نہ چھوڑنے کے ارادے سے آئے تھے تاکہ مقامی لوگوں میں
خوف پیدا کریں۔ گاڑی، جو ان کی واحد امید تھی، اس کے ٹائروں میں گولی مار کر
بیکار کر دی گئی، مگر آیینہ کی ہمت نہیں ٹوٹی۔ اپنے زخموں کی اذیت کو جھیلتے
ہوئے، انہوں نے گاڑی کا کنٹرول سنبھاال، ان کی انگلیاں کانپ رہی تھیں مگر ارادہ
اٹل تھا۔ ہر لمحہ ایک جنگ کی طرح تھا، ہر جھٹکا ایک نئی تکلیف دیتا تھا، مگر انہیں
اپنی جان کی فکر نہ تھی، وہ ہر قیمت پر قریبی فوجی میڈیکل سینٹر پہنچنا چاہتی تھیں۔
کی رکن اور پائن ووڈ (NCC (ان کی سب سے بڑی بیٹی، جو نیشنل کیڈٹ کور
اسکول کی دسویں جماعت کی طالبہ تھی، امید کی کرن بن کر ابھری۔ اس نے ایک
فوجی کی طرح حوصلے کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوراً فوجی حکام کو اطالع دی تاکہ
ان کی بروقت مدد ممکن ہو سکے۔ ماں اور بیٹی کے مضبوط رشتے نے اس نازک
لمحے میں جانیں بچانے کا کام کیا۔
،مگر افسوس! ان کے محافظ، ان کے سہارا، ان کی زندگی کا پیار، نائیک منظور احمد
اس دن کی سفاکی کا شکار ہو گئے۔ مگر اپنی آخری سانسوں میں انہوں نے کچھ غیر
معمولی دیکھا—اس عورت کی بے پناہ بہادری جسے وہ ٹوٹ کر چاہتے تھے۔ آیینہ
نے صرف اس دن کو نہیں جیتا بلکہ وہ آگ کے دریا میں تپ کر ایک ایسی جنگجو بن
گئی جو محبت اور قوت ارادی کی عالمت بن گئی۔
ان کی کہانی صرف ایک المیہ نہیں بلکہ استقامت اور غیر معمولی ہمت کی داستان
ہے۔ یہ انسان کے غیر متزلزل جذبے کی گواہی دیتی ہے، اس محبت کی جو ایک
شخص کو موت کے سامنے کھڑے ہونے پر مجبور کر دیتی ہے تاکہ وہ اپنے خاندان
کو بچا سکے، بغیر کسی ہچکچاہٹ کے۔
اپنے شوہر کی غیر موجودگی میں درپیش مشکل مستقبل نے ان کے حوصلے کو
کمزور نہیں کیا بلکہ انہوں نے اس چیلنج کو قبول کیا۔ انہوں نے عزم کیا کہ وہ اپنی
بیٹیوں کو والد کے نقش قدم پر چلنے کے لیے تیار کریں گی، تاکہ وہ بھارت کی
ایماندار اور باوقار شہری بن سکیں اور اپنے وطن کی خدمت کر سکیں۔
آیینہ صرف ایک زندہ بچ جانے والی نہیں بلکہ ایک جنگجو، ایک ماں، ایک بیوی اور
ایک بہادر کشمیری بیٹی ہیں جن کی ہمت کو آنے والی نسلیں یاد رکھیں گی۔ ان کی
کہانی وقت کے ساتھ ساتھ گونجتی رہے گی، ایک ایسی داستان کے طور پر جس میں
محبت، قربانی اور انسانی عزم کی الزوال طاقت موجود ہے۔