اداریہ 

470
ہائی سکیورٹی زونوں کے لیے عسکریت پسندوں کی حکمت عملی
13 دسمبر کو جموں و کشمیر پولیس کے مسلح ونگ کے ایک دستے کو لے جانے والی بس پر حملہ ہوا جس میں تین پولیس اہلکار اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور 11 شدید زخمی ہوئے، یہ حملہ کشمیر کے لیے پاکستان کی وضع کردہ حکمت عملی کو ظاہر کرتا ہے۔ بڑے عسکریت پسندوں کے حملے، اہم سیکورٹی تنصیبات جیسے کہ جموں وکشمیر پولیس آرمڈ ونگ کمپلیکس، کئی مسلح پولیس بٹالین سی آر پی ایف کے سیکٹر ہیڈ کوارٹر اور آئی ٹی بی پی کے اسٹیشن ہیڈکوارٹر کے قریب ہوئے ہیں۔ غیر ملکی دہشت گردوں سمیت کئی سرکردہ عسکریت پسند کمانڈروں کو ان علاقوں میں ختم کر دیا گیا ہے جنہیں یا تو ہائی سکیورٹی زون قرار دیا گیا ہے یا جن میں اہم اور سٹریٹجیک سکیورٹی تنصیبات ہیں۔
صرف دسمبر 2019 سے، رنگریٹ ،راولپورہ علاقے میں تقریباً چھ دہشت گرد مارے جا چکے ہیں، جہاں فوج اور پیرا ملٹری سکیورٹی فورسز بھاری تعداد میں تعینات ہیں۔ یہ دفاعی تنصیبات پرانے ہوائی اڈے کے قریب بھی ہے۔
دہشت گردوں نے پولیس اور سیکورٹی تنصیبات کے قریب سافٹ ٹارگٹ کو نشانہ بنایا۔ مشہوردوا سازمکھن لال بندرو کو ان کی دکان پر قتل کیا گیا جو ایس ایس پی آفس، جے کے پولیس کی کارگو برانچ اور فوج اور سی آر پی ایف کی تنصیبات سے چند گز کے فاصلے پر ہے۔ڈل گیٹ میں کرشنا ڈھابہ کے مالک کے بیٹے آکاش مہرا کو ہائی سکیورٹی زون میں قتل کر دیا گیا۔
دہشت گردی کے ابتدائی مرحلے میں مختلف دہشت گرد تنظیموں کے اعلیٰ کمانڈروں کو ہائی سکیورٹی زون کے طور پر سمجھے جانے والے علاقوں میں زندہ پکڑا گیا۔ ایک پاکستانی دہشت گرد ،بلال حیدر پورہ انکاؤنٹر میں مارا گیا تھا۔ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مطابق، 2020 کے موسم سرما میں وہ پولیس اسٹیشن راج باغ کے ساتھ راج باغ-جواہر نگر روڈ پر کہیں چھپا ہوا تھا۔ اس  سڑک پر وی آئی پی اور وی وی آئی پی زمرے کے لوگوں اور حفاظتی دستوں کی آمدورفت کا کافی رش رہتا ہے۔
فروری 2019 کا سب سے المناک واقعہ جس میں سی آر پی ایف کے 46 جوانوں نے اپنی جانیں گنوائیں وہ بھی سری نگر جموں قومی شاہراہ پر سی آر پی ایف کی ایک تنصیب کے قریب جہاں پر غیر معمولی گشت رہتا ہے ، اس علاقے میں پیش آیا۔ عام طور پر اس علاقے کی چوبیس گھنٹے نیم فوجی دستوں کے ذریعہ سخت نگرانی  کی جاتی ہے۔اُوڑی، ادھم پور اور پٹھانکوٹ میں ہونے والے حملوں کا یکساں انداز ہے۔ زیون حملہ اسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ سیکورٹی اور انٹیلی جنس ایجنسیاں شاید اس اہم نکتے سے غافل ہیں۔ یہ چراغ تلے اندھیرا جیسا معاملہ ہے ۔
بلاشبہ عسکریت پسندوں کو اچانک حملے کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ لیکن ملک اس بات کامتحمل نہیں ہو سکتا کہ وہ بے احتیاطی میں جکڑیں جائیں۔عسکریت پسند اعلیٰ سیکورٹی زونوںکے قریب چھپ جاتے ہیں یا حملہ کرتے ہیں کیونکہ یہ ہائی پروفائل حملے انہیں وہ تشہیر دیتے ہیں جس کی وہ متلاشی ہیں۔ اس کے علاوہ، یہ علاقے عام طور پر شک کے دائرے میں نہیں آتے ہیںاسی لئے عسکریت پسند اسی طرز پر چلتے ہیں۔ 2016 کے طویل ایجی ٹیشن کے دوران، اکتوبر میں یہ اطلاع ملی تھی کہ آٹھ غیر ملکی دہشت گردوں کے ایک گروپ کو راولپورہ میں کچھ ہائی پروفائل افراد کی رہائش گاہوں کے قریب دیکھا گیا تھا۔ اس علاقے کی حفاظت عام طور پر بھاری مسلح افواج سے ہوتی ہے۔ انٹیلی جنس اور سیکیورٹی اداروں کویہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے تاکہ مستقبل میں زیون جیسے سانحات سے بچا جا سکے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here