محسن یا غدار؟  محمد مقبول شیروانی 

452

 جن کو سیاسی پارٹیوں نے بدنام اور فراموش کیا 

اقبال احمد 
گزشتہ ماہ جموں وکشمیر کے لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا صاحب نے ایک تقریب پر بولتے ہوئے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ سکولی بچوں کوان بہادروں کے بارے میں باور کرایا جایا جنہوں نے وطن عزیز کے لئے اپنی جان نچھاور کرلی ۔ایل جی کا یہ اعلان خوش آئند اور دور رس نتائج کا حامل ہوگا ، ہماری آنے والی نسلوں پر یہ احسان ہوگا کہ وہ اپنے ان جیالوں کے بارے میں جان سکیں جنہیں جان بوجھ کر تاریخ کی دھندلا ہٹ میں دھکیلا گیا ۔جب بھی کشمیر کے بہادروں کا ذکر ہوگا تو سب سے پہلے جو نام ذہن پر نقش ہوگا وہ مقبول شیروانی کا ہوگا جس نے نوعمری میں ہی ایسا کارنامہ انجام دیا جو آب زر سے لکھنے کے لائق ہے ۔یہاںیہ امر قابل ذکر ہے کہ کشمیر کے ساتھ یہ بدقسمتی رہی ہے کہ عوامی نمایندوں جن میںجموں کشمیر نیشنل کانفرنس سر فہرست ہے ، گو کہ محمد مقبول شیروانی خود ان کی پارٹی کا رکن تھا ،نے کبھی یہ زحمت گوارا نہیں کہ وہ ان جیالوں کو یاد کرے جنہوں نے کشمیر یا کشمیریت کو زندہ رکھنے کے لئے اپنی جانوں کی پرواہ نہیں کی ،نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری اس کمزوری کا فایدہ دشمنوںنے خوب اٹھایا اور نسل درنسل ہمیں وہ بیانیہ پیش کیا جس کا حقیقت کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں بلکہ اس طرح کا بیانیہ ان لوگوں کے مفادات کی آبیاری کررہا تھا جو یہاں منافرت اور علیحدگی پسندی کے بیچ بور رہے تھے ۔اگرچہ عوامی حکومت میں شیخ محمد عبداللہ ،جو اس وقت سب سے قد آور لیڈر تھے نے مقبول شیروانی کی بہادری کے اعتراف میں سرینگر کے ریذڈنسی روڑ کا نام بدل کا شیرانی روڑ رکھا تھا لیکن یہ نام آج کہیں موجود نہیں ہے بلکہ اسکے بجائے یہ راستہ اسی برطانوی سامراجی دور کے نام یعنی ریذڈنسی روڑ سے جانا اور پہچانا جاتا ہے ۔اسی طرح بارہمولہ کا شیروانی ہال جو 1989میں آگ کی پر اسرار واردات میں خاکستر ہوا ،کو بعد ازاں فوج نے از سرنو تعمیر کرکے عوام کے لئے وقف کیا ، یا پھر صورہ میڈیکل انسٹی چیوٹ میں ایک وارڈ شیروانی کے نام سے منسوب ہے ،سوائے ان ناموں کے ،شہید مقبول شیروانی کانام کشمیر کی موجودہ تاریخ میں کہیں بھی درج نہیں ۔ اس تناظر میں شری منوج سنہا کا بیان قابل تحسین اقدام ہے
آج کی تاریخ میں بارہمولہ قصبے کے نزدیک فوجی چھاو ¿نی کے باہر ایک سنجیدہ ، سرگوش نوجوان کا پوسٹر لٹکا ہوا ہے۔ “شہید مقبول شیروانی ،” پوسٹر پر چھپی تحریر کے مطابق وہ 7نومبر 1947کو 19برس کی عمر میں ، شمال مغربی سرحدی صوبے کے قبائلی حملہ آوروں نے مار دیا ۔پاکستانی یشت پناہی والے قبائلی حملہ آوروں کی جانب سے مہاراجہ ہری سنگھ کی آزاد ریاست پر قبضے کرنے کی ناکام کوشش” آپریشن گلمرگ“ کی تاریخی ناکامی کی وجہ ،نیشنل کانفرنس (این سی) کے کارکن مقبول شیروانی سے منسوب کیا جاتاہے جوحملہ آوروں کے ہاتھوں غداری کے جرم میں پکڑا گیا او ر 7 نومبر 1947 کو بارہمولہ میں اس بہادر اور نڈر نوجوان کو سولی پر چڑھایا گیا۔
عجیب اتفاق ہے کہ 7 نومبر ، شیروانی کی شہادت کا دن ، وادی میںحملہ آوروں کا آخری دن ثابت ہوا کیونکہ ان میں سے سینکڑوں بھارتی فوج کے ہاتھوں مارے گئے تھے اور ہزاروں لوگ ان کے راستے میں قتل اور لوٹ مار کرتے ہوئے واپس بھاگ گئے تھے۔
کچھ تاریخی شواہد موجود ہیں جن سے واضح طور پر یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ شیروانی نے حملہ آوروں کو کس طرح گمراہ کیا۔ لیکن پچھلی سات دہائیوں کے دوران جتنے منہ اتنی باتیںلیکن کشمیر میں ہر ایک فرد کا خیال ہے کہ شیروانی نے ہی چھاپہ ماروں کو زبردست دھچکا پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شیروانی نے حملہ آوروں کو گمراہ کیا ، 23 اکتوبر سے 26 اکتوبر 1947 تک سری نگر کی طرف ان کی پیش قدمی کے چار اہم دن ضائع کیے اور اس طرح دارالحکومت اور وادی کے واحد ہوائی اڈے پر قبضہ کرنے کی ان کی کوشش کو ناکام بنا دیا۔ اور 26 اکتوبر کومہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ الحاق کے دستاویز پر دستخط کئے۔ حملہ آوروں نے شیروانی کے جسم میں 14 گولیاں داغ دیں۔
کہا جاتا ہے کہ ، شیروانی ، جو خود نیشنل کانفرنس کارکن تھا،نے حملہ آوروں سے کہا کہ وہ انہیں سرینگر کا راستہ دکھائے گا ، اس کے بجائے ، اس نے انہیں غلط راستے پرڈال کرگمراہ کیا ،غلط اور دشوار کن راستے نے حملہ آوروں کی پیش قدمی سست کی ، جس سے بھارت کی فوج کو کافی وقت ملا ، بالآخر 27 اکتوبر کو بھارتی فوج سری نگر ہوائی اڈے پر اتری۔
ایک اور بیانے کے مطابق ، شیروانی نے بائیک پر سوار ہو کر حملہ آوروں سے کہا کہ سرینگر کی طرف نہ بڑھو کیونکہ فوج پہلے ہی وہاںاتر چکی ہے۔ اس نے قبائلی افواج کی پیش قدمی روک دی اور بھارتی فوج کے لئے قیمتی وقت خریدا۔ حملہ آوروں کو 7 نومبر کو سری نگر کے باہر چند کلومیٹر کے فاصلے پر شالٹینگ میں روکا گیا اور اگر حملہ آور بھارتی فوج سے پہلے سری نگر پہنچ چکے ہوتے تو کہا جاتا ہے کہ جنگ بہت مختلف طریقے سے ختم ہو سکتی ہے۔ شیروانی کی چال کے بارے میںحملہ آوروں کو تب پتہ چلا جب وہ بارہمولہ قصبے سے 35 کلومیٹر دور سمبل میں تھا۔ وہ اسے قتل کرنے کے لیے واپس بارہمولہ لے آئے اور ان کی لاش کچھ دن تک قصبے میں لٹکا کر رکھی ، جوکہ دوسرے رہائشیوں کے لیے ایک سخت انتباہ تھی۔
شیروانی کے شہادت کے ایک عینی شاہد علی محمد بٹ نے واقعہ کے مطلق نمائندوں کو بتایا تھا کہ ” قبائلی کو یہ بات ہضم نہیں ہورہی تھی کہ ایک انیس برس کے چھوکرے نے انہیں بے وقوف بنایا ،وانی کا کہنا تھا کہ میں نے اپنی آنکھو ں سے دیکھا کہ نیم مردہ شیروانی کو موٹر سائیکل کی پٹرول ٹینکی پر لٹکایاکر لے جایا جار تھا ،بعد میں انہیں لکڑی کے ایک تختے پر لٹا کر کیل ٹھونکے گئے اور 10سے 15گولیاں اس کے نیم مردہ تن میں ڈالی گئیں ۔
مقبول شیروانی کی اس بہادر ی پر روشنی ڈالتے ہوئے ، اس کے رشتہ دارکاکہنا تھا کہ “1947 میں ، محمد مقبول شیروانی صرف 19 سال کے تھے لیکن انہوں نے اکیلے ہی ہزاروں حملہ آوروں کی پیش قدمی کو روکا جس اقدام سے ہندوستانی فوج کو سری نگر میں اترنے اور حملہ آوروں کو پیچھے دھکیلنے کے لیے قیمتی مل گیا۔ان کاکہنا ہے کہ شیروانی کی لاش اس وقت سولی سے اتاری گئی جب فوج اس مقام پر پہنچی۔مذکورہ رشتہ دار کا کہنا تھا کہ” آج شیروانیوں کو” غداروں “کے طور پر دیکھا جا رہا ہے اور انہیں” ہندوستانی ایجنٹ “کہا جا رہا ہے۔
جب مقبول کو حملہ آوروں نے دبوچ لیا توانہوں نے نرمی سے مقبول سے کہا ”تم ایک امید افزا نوجوان ہو۔ اگر آپ خود ہمارے ساتھ شامل ہوئے تو ہم آپ کو معاف کردیں گے۔ آپ ہمیں شالٹینگ میں ملیشیا (ریاستی فورس) اور بھارتی فوجیوں کی خفیہ پوزیشن ضرور بتائیں اور ہمیں سری نگر ایئرپو رٹ کا مختصر ترین راستہ بھی دکھائیں “۔لیکن مقبول شیروانی نے دو ٹوک اور سخت لہجے میں کہا کہ ”ایسا ہرگز نہیں ہوگا“۔حملہ آوروں کے امیر نے اردو میں ایک کاغذ پر “شیروانی غدار ہے ، اس کی سزا موت ہے” لکھا اور اسے شیروانی کے ماتھے پر چسپاں کیا۔ امیر نے اپنے جوانوں کو حکم دیا ، “اس کے کان اور اس کے گرتے ہوئے سر اور بازوو ¿ں کو سیدھے پوسٹوں پر ب

 

اندھ دو تاکہ ہر راہگیر اسے دیکھ سکے
8 نومبر 1947 کو حملہ آوروں کو بارہمولہ سے نکال دیا گیا۔ رہائی پانے والوں کی پہلی کارروائی میں سے ایک شیروانی کی میت کو دوبارہ حاصل کرنا اور اسے پورے فوجی اعزاز کے ساتھ قصبے کی جامع مسجد کے قبرستان میں دفن کرنا تھا۔
 کہا جاتا ہے کہ جب محمد علی جناح نے کشمیر کا دورہ کیا اور بارہمولہ میں اپنے ‘دو قومی’ نظریہ پر بات کی تو شیروانی نے انہیں پلیٹ فارم سے نیچے آنے پر مجبور کیا اور اس سے ان کی تقریر رک گئی۔ شیخ عبداللہ نے 1939 میں اس کا نیشنل کانفرنس کو مسلم کانفرنس سے الگ کردیا ، جس کی قیادت کے ایک حصے نے مسلم لیگ سے روابط استوار کئے اور یوں سابق ڈوگرہ ریاست میں مسلم لیگ یا یوں کہیں کہ مسلم کانفرنس کی سیاست کا آغاز ہوا۔کہا جاتا ہے کہ شیروانی “شیر کشمیر” یعنی شیخ محمد عبداللہ کا بچپن سے ہی

 شیدائی تھا اور اس طرح نیشنل کانفرنس کاایک سرشار کارکن بن گیا۔اور1939 میں جب شیخ محمد عبداللہ نے آل جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس کی بنیاد رکھی ،تب سے ہی مقبول شیروانی اس کا ایک سخت حامی رہا۔
شیخ محمد عبداللہ کے بارے میںشیروانی کے ایک قریبی رشتے دار غلام محمد کا کہنا تھا کہ وہ ایک خودغرض شخص تھے جنہوں نے اقتدار حاصل کرنے کے بعد اپنے وفادار کارکنوں کی کبھی پرواہ نہیں کی۔ یہ روایت اب بھی نیشنل کانفرنس میں جاری ہے۔ جب میرے بھائی کو قتل کیا گیا تو مقبول کے والد محمد عبداللہ شیروانی نے شیخ محمد عبداللہ سے ملاقات کی اور اپنے دوسرے بیٹے کے لیے معاش کا مطالبہ کیا۔ شیخ محمد عبداللہ نے پرواہ نہیں کی ، غلام محمد، مقبول شیروانی کے خاندان کا واحد شخص ہے جس نے 1958 میں اس وقت سیاست میں شمولیت اختیار کی جب وہ محکمہ تعلیم میں خدمات انجام دے رہا تھا۔ بعد میں ، وہ 1975 میں انڈین نیشنل کانگریس کے ایک فعال رکن بن گئے۔
شیروانی کی شجاعت کی تعریف معروف و مشہور شاعر مہجور نے اپنی نظم” نالہ شیروانی“ میں 6اور7 نومبر کی رات کو شیروانی کی تکلیف کا خلاصہ اپنی اس نظم میں کیا جب وہ بارہمولہ میں حملہ آوروں کی قید میں تھا۔ اس نے شیروانی کے پیغام کو کشمیری عوام کے لیے لکھا ہے۔ مہجور ، شیروانی کے ذریعے حملہ آوروں کو ’آدم خور‘ اور ’ بدمعاش ‘ کہتا ہے
نظم ”نالہ شیروانی“
آدم خور پہاڑوں سے اترے ہیں۔
ان کے ہاتھوں پر بے گناہوں کا خون ہے۔
انہوں نے میرے ملک کو ایک حقیقی جہنم بنا دیا ہے۔
یہ پھولوں کا باغ تھا اور انہوں نے اسے برباد کر دیا ہے۔
انہوں نے اپنے تیروں کو عندلیبوں پر سادھا ۔
انہوں نے پتھر بلور کی دکانوں پر پھینکے۔
(ترجمہ)
بلرب 1
ایل جی کا یہ اعلان خوش آئند اور دور رس نتائج کا حامل ہوگا ، ہماری آنے والی نسلوں پر یہ احسان ہوگا کہ وہ اپنے ان جیالوں کے بارے میں جان سکیں جنہیں جان بوجھ کر تاریخ کی دھندلا ہٹ میں دھکیلا گیا
بلرب 2
 عجیب اتفاق ہے کہ 7 نومبر ، شیروانی کی شہادت کا دن ، وادی میںحملہ آوروں کا آخری دن ثابت ہوا کیونکہ ان میں سے سینکڑوں بھارتی فوج کے ہاتھوں مارے گئے تھے اور ہزاروں لوگ ان کے راستے میں قتل اور لوٹ مار کرتے ہوئے واپس بھاگ گئے تھے۔
بلرب 3
عوامی حکومت میں شیخ محمد عبداللہ ،جو اس وقت سب سے قد آور لیڈر تھے نے مقبول شیروانی کی بہادری کے اعتراف میں سرینگر کے ریذڈنسی روڑ کا نام بدل کا شیرانی روڑ رکھا تھا لیکن یہ نام آج کہیں موجود نہیں ہے بلکہ اسکے بجائے یہ راستہ اسی برطانوی سامراجی دور کے نام یعنی ریذڈنسی روڑ سے جانا اور پہچانا جاتا ہے ۔اسی طرح بارہمولہ کا شیروانی ہال ، یا پھر صورہ میڈیکل انسٹی چیوٹ میں ایک وارڈ شیروانی کے نام سے منسوب ہے ،سوائے ان ناموں کے ،شہید مقبول شیروانی کانام کشمیر کی موجودہ تاریخ میں کہیں بھی درج نہیں
بلرب 4
شیخ محمد عبداللہ کے بارے میںشیروانی کے ایک قریبی رشتے دار غلام محمد کا کہنا تھا کہ وہ ایک خودغرض شخص تھے جنہوں نے اقتدار حاصل کرنے کے بعد اپنے وفادار کارکنوں کی کبھی پرواہ نہیں کی۔ یہ روایت اب بھی نیشنل کانفرنس میں جاری ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here