کے زین ڈیسک
بالآخر عمران حکومت نے انتہا پسند جماعتوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں اخباری اطلاعات کے مطابق یہ خبریں سامنے آرہی ہیں کہ تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ مفاہمت کے بعد اب پی ٹی آئی حکومت تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ بھی ایک عبوری معاہدہ پر متفق ہوگئی ہے۔ بنیادی شرط کے مطابق ٹی ٹی پی کے بعض لوگوں کو رہاکیا جائے گا جس کے بدلے میں تحریک طالبان پاکستان ، اپنی دہشت گرد کارروائیاں معطل کردے گی۔ یہ اقدام بظاہر عمران خان کے اس اعلان کی روشنی میں کیا جارہا ہے کہ وہ سیاسی معاملات میں تصادم کی بجائے مصالحت کی پالیسی اختیار کرنے پر یقین رکھتے ہیں اور جو دہشت گرد عناصر ہتھیایر پھینکنے کا وعدہ کریں گے ، انہیں عام معافی دے دی جائے گی۔
ان دونوں تنظیموں کے ساتھ ہونے والی مفاہمت میں یہ مماثلت بھی موجود ہے کہ تحریک لبیک پاکستان کے مظاہرین شہری زندگی معطل کرکے اور پولیس اہلکاروں کو ہلاک کرنے کے علاوہ انہیں بہیمانہ تشدد کا نشانہ بناتے آرہے ۔ جبکہ تحریک طالبان پاکستان بھی اپنے مطالبات کی تکمیل کے لئے ایک بار پھر دہشت گرد کارروائیوں میں اضافہ کرچکی ہے اور قبائیلی علاقوں میں تقریباً روزانہ کی بنیاد پر عسکری ٹھکانے اور قافلے ان کے نشانے پر ہوتے ہیں جن میں کثیر جانی نقصان کی اطلاعات بھی سامنے آتی رہی ہیں۔ یعنی حکومت پاکستان نے یہ دونوں معاہدے کسی کمزور مگر ناراض گروہ پر رحم کے جذبہ سے ’طاقت کی پوزیشن ‘ پر رہ کر نہیں کئے بلکہ دونوں صورتوں میں پاکستانی حکومت و ریاست مجبور اور بے دست و پا دکھائی دیتی ہے۔
پاکستانی حکومت ہی یہ اعلان کرتی رہی ہے بلکہ تمام عالمی فورمز پر اس مو ¿قف کو تسلیم کروانے کی کوشش کرتی رہی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کا حصہ بننے کی وجہ سے تحریک طالبان پاکستان نے گزشتہ دو دہائی کے دوران پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دیا اور سول و عسکری ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔ حکومت پاکستان کا دعویٰ ہے کہ ان حملوں میں فوجیوں کے علاوہ شہریوں سمیت 80 ہزار افراد جاں بحق ہوئے ہیں جبکہ ملکی معیشت کو 120 ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ پاکستانی حکومت اور اس کے نمائندے امریکہ کو اس پاکستانی نقصان کا بالواسطہ ذمہ دار کہتے رہے ہیں لیکن حیرت ہے کہ جس گروہ نے پاکستان کو اس قدر شدید جانی و مالی نقصان پہنچایا ہے، اس کے ساتھ بات چیت کا آغاز کرنے کے پیچھے کیا مقاصد کار فرما ہیں
اس حوالے سے یہ دیکھنا بھی اہم ہے کہ تحریک لبیک کے ساتھ معاہدہ کرتے ہوئے ملک کی سول حکومت مجبور دکھائی دی تھی۔ حکومت اور ٹی ایل پی میں ثالثی کروانے والے مفتی منیب الرحمان نے ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے کے ساتھ ایک تازہ انٹرویو میں اعتراف کیا ہے کہ وہ اس معاملہ میں فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملے تھے اور انہوں نے اس معاملہ کو کسی تصادم کے بغیر پر امن طریقے سے حل کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس بار ہونے والا معاہدہ پہلے سے یوں بھی مختلف ہے اور اس کی کامیابی کے امکانات ہیں کیوں کہ ’اس بار ضمانت انہوں نے دی ہے جو اس کا اختیار رکھتے ہیں‘۔ دوسرے لفظوں میں وہ یہ قرار دے رہے ہیں کہ ملک کی منتخب حکومت جو وزیر اعظم عمران خان کی سرکردگی میں کام کررہی ہے، کسی سرکش گروہ کے ساتھ معاہدہ کی ضمانت دینے کی اہل بھی نہیں ہے۔دوسری جانب تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ ہونے والی ’عبوری مصالحت‘ میں فوج دفاعی پوزیشن میں دکھائی دیتی ہے۔ اگر تحریک انصاف کی حکومت کے نمائندے افغان طالبان کے ساتھ مل کر پاکستانی طالبان یا دہشت گرد گروہوں کے ساتھ کسی مفاہمت پر پہنچنے کی کوشش کررہے ہیں تو وہ بالواسطہ طور سے یہ اعتراف بھی کررہے ہیں کہ عملی طور سے ملکی افواج ان گروہوں کے سامنے بے بس ہوچکی ہیں۔ اس کا دوسرا پہلو افغان طالبان اور پاکستان کے تعلق کی صورت میں دکھائی دیتا ہے۔ اس میں بھی پاکستانی فوج ہی کی پوزیشن کمزور نظر آتی ہے۔ کابل میں حکمران افغان طالبان نے بار بار درخواست کے باوجود پاکستان میں دہشت گردی کے ذمہ دار عناصر کے خلاف کوئی کارروائی کرنے یا ان سے قطع تعلق کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اب افغان صوبہ خوست میں پاکستانی حکام اور ریاست کے سرکش پاکستانی طالبان کے درمیان جو مذاکرات ہورہے ہیں، ان کے سہولت کار بھی افغان حکومت کے وزیر داخلہ سراج الدین حقانی ہیں۔
سراج الدین حقانی اسی حقانی نیٹ ورک کے سربراہ ہیں جس کے بارے میں امریکہ کا دعویٰ رہا ہے کہ وہ دنیا بھر میں پاکستانی علاقوں سے دہشت گردی میں ملوث رہا تھا اور پاکستانی فوج اس کی پشت پناہی کرتی تھی۔ اب وہی عناصر پاکستان کا ساتھ دینے کی بجائے پاکستانی حکومت اور فوج کو اس بات پر مجبور کررہے ہیں کہ وہ طویل عرصہ تک ملک میں دہشت گردی کرنے والے لوگوں کے ساتھ صلح کردے۔ یہ مصالحت اس ایک نکتہ کی بنیاد پر کرنے کا مشورہ نہیں دیا جارہا کہ ٹی ٹی پی ماضی کی غلطیوں پر پشیمانی کا اظہار کرتے ہوئے ہتھیار پھینک دیتی ہے اور پاکستان بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں معاف کردے تاکہ وہ پر امن شہریوں کے طور پر زندگی گزار سکیں۔ مصالحت کے اس عمل میں تحریک طالبان پاکستان کے نمائیندے ایک فریق کے طور پر حکومت یا ریاست پاکستان کے نمائندوں سے برابری کی بنیاد پر کچھ رعایت دینے اور کچھ سہولت لینے کی بات کررہے ہیں۔ یہ صورت حال پاکستان کی خود کی پیداوار کا خمیازہے جہاںاس نے پہلے غیر ریاستی عناصر کو دوسرے ممالک اور اپنے ہمسایہ ممالک میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لئے ان گروپوں کی پشت پناہی کی وہیں اب یہ گروپ اتنے سرکش اور طاقت ور ہوچکے ہیں کہ آج یہ اپنے سرپرست حکومت اور فوجی آقاوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرے رہی ہے ۔
تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ افغان وزیر داخلہ کے ذریعے کسی مفاہمت کا یہ نتیجہ بھی ہوگا کہ امریکہ اور دنیا کے باقی ممالک یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ تثلیث دراصل پاکستان ، تحریک طالبان پاکستان ، افغان طالبان اور دیگر دہشت پسندوں گروہوں پر مشتمل ہے اگر چہ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے پاکستان نے اس وقت تک سرکاری طور افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے اور اس طرح دنیا کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ بھی باقی ملکوں کی طرح طالبان کی طرف سے پر امن بقائے باہمی کے وعدوں کی تکمیل کا انتظار کررہا ہے۔ لیکن افغان طالبان (حکومت) پاکستانی طالبان اور پاکستانی حکومت کے درمیان بقائے باہمی کا معاہدہ پاکستان کی حقیقی پالیسی اور مستقبل میں اس علاقے میں انتہا پسندی کے بارے میں شکوک و شبہات کو جنم دے رہا ہے