وادی میں حالیہ واقعات کے بعد عوام بڑی حد تک الجھن کا شکار ہیں۔یہ الجھن ہر طرف اور ہر شعبے میں دیکھی جاسکتی ہے۔ کتنا افسوس ناک منظر ہوتا ہے جب لوگوں کو مرتے تڑپتے دیکھا جارہا ہو۔مرنے والوں میں چاہے وہ غیر مقامی ہوں، مقامی ہوں یا سیکورٹی فورسز۔ یہ صرف خونریزی ہوتی ہے۔ بندوق برداروں کا کام قتل و غارت گری ہے ،لیکن عوام اس بات سے بے خبر ہیں کہ کیوں اور کس بنا پر اکثریتی برادری کے نام پر کسی کوقتل کیا جاتا ہے۔
ماہ اکتوبر میں کشمیر میںسب زیادہ 46 ہلاکتیں ہوئیں۔ ان میں سیکورٹی فورس کے 17 اہلکار شامل ہیں (جن میں11 لڑائی میں، 6 دیگر طرح کی ہلاکتیں ہیں )، 17 عسکریت پسند (تمام مقامی لڑکے) اور 12 عام شہری (چھ جموں و کشمیر کے جبکہ چار کا تعلق بہار سے اورایک اتر پردیش سے) مارے گئے ہیں۔ 12 شہری ہلاکتوں میں سے 10 کو عسکریت پسندوں نے ہلاک کیا اور دو کو نیم فوجی دستوں نے گولی مار کر ہلاک کیا۔
بندوق بردار ،سرحدپار بیٹھے ان کے آقا کسی الجھن کا شکار نہیں ہیں ، ان کا ایک ہی مقصد ہے کہ یہ خونریزی اور قتل وغارت گری جاری رہنی چاہئے ۔ لیکن اس ساری دہشت گردی کی قیمت ایک عام کشمیری کو ادا کرنی پڑ رہی ہے جس سے عوام ذہنی تناو اورالجھن کاشکار ہیں جبکہ روز مرہ کی زندگی بھی تنزلی کا شکار نظر آتی ہے۔ایسے تنازعات سے پاکستان کو فائدہ ہو رہا ہے۔اور مین سٹریم سیاستدان بھی اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اور پھر ہمارے پاس راجوری کے بی ایس ایف جوان محمد سجاد جیسی کالی بھیڑیں ہیں، جنہیں واٹس ایپ کے ذریعے پاکستان کو خفیہ معلومات بھیجنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ۔
مخمصے کی شکار اکثریت کو جاگنا ہوگا
کشمیر گزشتہ تین دہائیوں سے مسلح تصادم میں پھنسا ہوا ہے۔ ہم سب ایک نفسیاتی کشمکش میں پھنسے ہوئے ہیں۔ آج کی صورتحال انتہائی تشویش ناک ہے ۔ہم ”صم ًبکمً بے چین اکثریت “ہیں
جب ہمیں آواز اٹھانی چاہیے تو ہم آواز نہیں اٹھاتے۔ ماضی میں برسوں تک کشمیریوں نے عسکریت پسندوں کی ہلاکت کے بعد مکمل ہڑتالیں کی تاکہ علیحدگی پسندوں کاحکم بجا لایا جائے ، چاہے وہ 2016 میں چھ ماہ طویل ایجی ٹیشن ہو، یا اس سے پہلے 2008 یا 2010 میں ہونے والی ایجی ٹیشن۔
یہ ہڑتالیں رضاکارانہ نہیں تھیں، لیکن ہم بہرحال ان کا حصہ تھے۔ ہم نے اپنے بال بچوں کو بھوکا رکھا، ہمارے بچوں کی تعلیم کو نقصان پہنچا، لیکن ہم نے کبھی آواز نہیں اٹھائی۔ جو آواز اٹھانا چاہتے تھے وہ گولی کے ڈر سے خاموش تھے ۔
اس خود اختیاری بندش نے کشمیر میں یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کو اپنے اہل خانہ کا پیٹ پالنے کے لیے گھرکے برتن بیچنے پر مجبور کر دیا۔ممبئی سے شائع ہونے والے ایک انگریزی اخبار ڈی ،این ،اے نے 2010 کی شورش کے دوران، کشمیر کی بدامنی کے نامعلوم متاثرین: ایک بوٹ مین، ایک ہاکر ،کے عنوان سے رپورٹ شائع کی۔رپورٹ میںاس بات کا انکشاف کیا گیا تھا کہ کس طرح آئے روز کی ہڑتالیں یا طویل مدتی شٹ ڈاون کے نتیجے میں یومیہ مزدوری پانے والے افراد کو بھکمری سے بچنے کے لئے گھر کا اثاثہ بیچ دینا پڑا۔
اسی طرح2016 کی بدامنی نے جموں و کشمیر کو غیر معمولی نقصان پہنچایا، جس کا تخمینہ ایک ایجنسی نے 16,000 کروڑ روپے سے زیادہ لگایا۔
ہم تب بھی کشمکش اور لب بستہ تھے ،اور اب بھی ویسے ہی صامت و ساکت ہیں جب بے گناہ مارے جا رہے ہیں ۔ ہم ایک ذمہ دارمعاشرے کے طور پر کوئی واضح جواب دینے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ ان وحشیانہ ہلاکتوں پر کوئی چیخ و پکار نہیں، کوئی آہ و زاری نہیں۔ کوئی اس کی ترجمانی نہیں کررہا ،کوئی ان ہلاکتوں پر بات نہیں کررہا ۔ ہم صاف گو کیوں نہیں ۔ہم کھلے عا م اس کی مذمت کیوں نہیں کررہے ہیں ؟ بحیثیت معاشرہ ہم کس طرف جا رہے ہیں؟ کیا ہم بطور معاشرہ ترقی کر رہے ہیں؟اس بات سے ہم قطعی بے خبر ہیں
کشمیر اور کشمیریت کو بچانا
ہم بھول جاتے ہیں کہ ایسی حماقتوں پر ہمارا آواز اٹھانا صرف دوسروں کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ ہماری اپنی حفاظت کو یقینی بنائے گا۔ آج اگر ہم اقلیتوں اور غیر مقامی افراد کے قتل کے خلاف کھڑے ہو جائیں تو کل ہم اس طرح کے قتل سے بچ جائیں گے۔ اگر دہشت گردی کو کسی سماجی مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے تو یہ جاری و ساری رہے گی۔
یہ خیال کرنا حماقت ہے کہ دہشت گرد صرف غیر مقامی لوگوں کو قتل کرنے سے باز رہیں گے۔ اگر یہاں کوئی اقلیت اور کوئی غیر مقامی نہیں رہے گا تو دہشت گرد اکثریتی برادری کو نشانہ بنانا شروع کر دیں گے۔کیونکہ ان کی روز ی روٹی دہشت پسندی کی منڈی سے حاصل ہوتی ہے یہ ان کی آمدنی کا ذریعہ ہے – وہ اسے کسی کے لیے بند نہیں کر سکتے۔ یہی وجہ ہے کہہ ہمیں صاف گوئی اورحق بات کہنے سے نہیں ڈرنا چاہئے
اگر ہمارے آس پاس کچھ غلط ہورہا ہے تو اسے چیلنج کرنا چاہیے۔ اگر آج ہم نے آواز نہیں اٹھائی، اور حفاظتی دستوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوئے ،تو اس سے دشمن کمزور ہو جائے گا۔ ہمارا مثبت اقدام کشمیر، کشمیریوں اور کشمیریت کو بچائے گا۔ مارٹن نیمولر کایہ اقتباس کشمیر کے موجودہ منظر نامے کے ساتھ بہترین صاد ہے۔ “پہلے وہ کمیونسٹوں کے لیے آئے اور میں نے اس لیے نہیں بولا کہ میں کمیونسٹ نہیں تھا، پھر وہ سوشلسٹوں کے لیے آئے اور میں نے اس لیے نہیں بولا کہ میں سوشلسٹ نہیں تھا، پھر وہ ٹریڈ یونینوں کے لیے آئے، اور میںنے بات نہیں کی کیونکہ میں ٹریڈ یونینسٹ نہیں تھا۔ پھر وہ یہودیوں کے لیے آئے، اور میں نے بات نہیں کی کیونکہ میں یہودی نہیں تھا۔ پھر وہ میرے لیے آئے اور میرے لیے بولنے کے لیے کوئی نہیں بچا۔“
شاید مشہور شاعر فیض احمد فیض نے ایسے موقع کے لئے کہا تھا
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے ،بول کہ زبان اب تک ہے تیری