کرکٹ لوآج میں بھی ”مسلمان “ ہوگیا

522
پاکستان میں کرکٹ مذہب اور قوم پرستی سے متاثر کیوں؟
کرکٹ جس کو (Gentleman’s Game ) کہا جاتا ہے اور دنیا بھر کے کئی ممالک میں اس کھیل کومذہب ،رنگ و نسل یا پھر سیاست سے الگ کرکے کھیلا جاتا ہے لیکن گزشتہ چند برسوں میں کچھ لوگوں کی انتہا پسندانہ سوچ اور مذہبی بنیاد پرستی نے گوروں کے ایجاد کردہ اس کھیل کو” مسلمان “ بنادیا ۔تازہ ترین مثال ہمسائیہ ملک پاکستان کے وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کے اس حالیہ بیان سے لگایا جاسکتا ہے جس میں انہوں نے بھارت کی کرکٹ ٹیم کے خلاف پاکستان کی کامیابی پر ایک ویڈیو بیان جاری کیا ویڈیو میں انہوں نے کہا کہ پاکستانی ٹیم کی فتح دراصل دنیا بھر میں مسلمانوں کی کامیابی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بھارت کے مسلمان بھی پاکستان کی کامیابی کا جشن منا رہے ہیں۔
دنیا بھر کے کرکٹ شائقین نے سوشل میڈیا پر پاکستان کے وزیر داخلہ کے اس بیان پر کڑی تنقید کی۔ بین الاقوامی قانون کی ماہر ریما عمر کا کہنا تھا،”جب ہم بھارت میں عدم برداشت اور تعصب پر فکر مند ہوتے ہیں تو اس وقت ہمیں دیکھنا چاہیے کہ خود پاکستان میں ہمارے وزیر میچ کی کامیابی پر کیسا ردعمل ظاہر کر رہے ہیں۔ کیا اپنی ٹیم کی کامیابی سیاست اور مذہب کے بغیر نہیں منائی جاسکتی؟”
اس حوالے سے پاکستانی صحافی نور چوہدری کا کہنا تھا،”بھارت کی کرکٹ ٹیم میں بہت شاندار مسلمان کھلاڑی ہیں جنہوں نے بہت محنت سے اپنی ٹیم کے لیے کھیلا ہے۔ شیخ رشید کا بیان ان کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔”
نہ صرف شیخ رشیداحمد بلکہ پاکستان کے ایک اور وزیر اسد عمر کی جانب سے بھی ایک ٹویٹ پر کافی تنقید کی گئی۔ اسد عمر کا کہنا تھا،”بابر اعظم ان کو چائے پلانا نہ بھولنا، پہلے ہم ان کو پھینٹی لگاتے ہیں، پھر جب یہ آسمان سے زمین پر آجاتے ہیں تو ہم انہیں چائے پلا کر گھر بھیجتے ہیں۔”
بھارت کے ایک صحافی انشل سکسینہ کا کہنا تھا کہ،” بھارت پاکستان سے ورلڈ کپ کے بارہ میچوں میں جیت چکا ہے تو ان بارہ میچوں میں کس کی فتح ہوئی اور کس کی شکست۔”
آج صورتحال یہ ہے کہ پاکستان میں کرکٹ سیاست اور مذہب کے بارے میں بن چکی ہے، جس میں بھارت کو شکست دے کر مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے “بد سلوکی” کا “بدلہ” لینا، یا نیوزی لینڈ کو میچ چھوڑنے پر “سبق سکھانا” جیسی داستانوں پر قایم ہے۔گزشتہ اتوار کو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے ایک میچ میں پاکستان کی جانب سے بھارت کو شکست دینے کے فوراً بعد،پاکستان کے وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا کہ یہ جیت “اسلام کی فتح” ہے۔وزیر نے ٹویٹر پر ایک ویڈیو پیغام میں کہا، “دنیا بھر کے مسلمان خوشی منا رہے ہیں۔”
یہ پہلا موقع تھا جب پاکستان نے ورلڈ کپ کے کسی میچ میں ہندوستان پر غلبہ حاصل کیا۔ تقریبات فطری طور پر ترتیب دی گئیں، پاکستان بھر میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے، حب الوطنی کے نعرے لگا ئے ،وہ رقص کر رہے تھے اورملکی پرچم لہرا رہے تھے۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ1947 میں دونوں ممالک نے برطانوی راج سے آزادی حاصل کرلی جس کے بعد سے ہی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں۔دونوں ممالک تین مکمل جنگیں لڑ چکے ہیں، اور وہ ایک دوسرے پر کشمیر کے علاقے میں مداخلت کا الزام لگاتے رہتے ہیںیہ جغرافیائی اور سیاسی دشمنی کھیلوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے، خاص طور پر کرکٹ، جو کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں میں مقبول ترین کھیل ہے۔ اتوار کو بھارت کی شکست کے بعد پاکستانی سوشل میڈیا بھارت مخالف پوسٹس، میمز اور تبصروں سے بھر گیا۔
قوم پرستی اسلامیت سے ملتی ہے۔
ماضی میں، ہندوستان اور پاکستان کی کرکٹ دشمنی قوم پرستی کے جذبات سے جڑی ہوئی تھی، اور حال ہی میں، مذہب نے بھی بڑا کردار ادا کرنا شروع کر دیا ہے۔بہت سے پاکستانیوں کا خیال ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت ہندوستانی مسلمانوں کے حقوق سلب کر رہی ہے۔پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے بار بار مودی حکومت کو ایک “فاشسٹ حکومت” قرار دیا ہے، اور یہ الزام لگایا ہے کہ وہ نہ صرف کشمیر بلکہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی مسلمانوں پر تشدد کر رہی ہے۔سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ شیخ رشید احمد کایہ بیان کہ “اسلام کی فتح” کے بیان کو اسی روشنی میں دیکھا جانا چاہیے، جیسا کہ اس کا مطلب یہ تھا کہ پاکستان نے مسلمانوں کے خلاف “بھارتی مظالم” کا “بدلہ” لیا ہے۔
معروف پاکستانی سماجی نقاد اور صحافی ندیم فاروق پراچہ نے ایک غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ، “یہ ایک لاپرواہ تبصرہ تھا۔”انہوں نے مزید کہا کہ “بہت سے پاکستانی سیاست دان ہر چیز میں اسلام لانے کا رجحان رکھتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہاکہ بر سر اقتدار لوگ جب وہ کام کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں جس کے لئے انہیں منتخب کیا گیا تھا، تو ایسے لوگ اس طرح کے بیا نات کثرت سے دیتے ہیں کیونکہ اپنی ناکامی چھپانے کے لئے مذہبِ اسلام ان کا آخری راستہ ہے،”
کرکٹ کی اسلامائزیشن
1990 کی دہائی تک زیادہ تر پاکستانی کرکٹرز نے اپنے عقیدے کو اپنے پیشے سے دور رکھا۔ ان میں سے بہت سے لوگ کلین شیون تھے، اور کچھ، جیسے موجودہ پاکستانی وزیراعظم عمران خان، جنہوں نے 1992 میں کرکٹ ورلڈ کپ جیتا تھا، برطانوی تعلیم یافتہہیں۔البتہ پچھلی دو دہائیوں میں، بہت سے پاکستانی کرکٹرز تبلیغی جماعت میں شامل ہوئے، اور آج اس کے کٹر حامی اور پیروکار ہیں۔عمران خان ، جو کبھی برطانیہ میں اپنی “پلے بوائے” امیج کے لیے مشہور تھے، اب ایک قدامت پسند سیاست دان ہیں، جن کا خیال ہے کہ مغربی ثقافتی اثر و رسوخ نوجوان پاکستانیوں کو خراب کر رہا ہے۔اسی طرح پاکستانی کرکٹ ٹیم کے اکثر کھلاڑی اپنی پریس کانفرنسوں میں مذہبی اصطلاحات کا استعمال کرتے ہیں اور کچھ تو فتح کے بعد میدان میں سجدہ ریز ہو جاتے ہیں۔پاکستانی سوشل میڈیا صارفین نے بلے باز محمد رضوان کو بھارت پاکستان میچ کے دوران میدان میں نماز ادا کرنے پربھی خوب سراہا۔دوسری جانب سابق پاکستانی فاسٹ باو ¿لر وقار یونس رضوان کی اس مذہبی نمائش سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے ایک پاکستانی نیوز چینل کو بتایا کہ رضوان کو ہندوو ¿ں کے سامنے “نماز” پڑھتے ہوئے دیکھنا ان کے لیے بہت خاص تھا۔اگرچہ وقاریونس نے بعد میں اپنے تبصروں پر معذرت کی: اور کہاکہ”اس لمحے میں، میں نے جوکچھ کہا دراصل وہ میرا قطعی مطلب نہیں تھا۔” کراچی کے ایک شہری قیصر اقبال ،جوعمران خان کے حامی ہیں کا کہنا ہے کہ “میچ کے دوران دعا کرنے سے کھلاڑیوں کو نفسیاتی حوصلہ ملتا ہے۔”انہوں نے غیر ملکی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ “وہ مطمئن ہیں کہ انہوں نے اپنی پوری کوشش کی، اور اب یہ خدا پر منحصر ہے کہ وہ ان کی مدد کرے۔”اسی طرح پاکستانی شہر لاہور کی ایک بینک ملازم، زاہدہ نذر نے کہا کہ مسلمان یقین رکھتے ہیں کہ خدا مشکل وقت میں وفاداروں کی مدد کرتا ہے۔انہوں نے مزید کہاکہ لیکن مجھے لگتا ہے کہ ایک کھیل جیتنے کے لیے سخت محنت کی بھی ضرورت ہے،”سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس چیز نے پاکستانی کرکٹرز کو میدان میں اور میدان سے باہر حد سے زیادہ مذہبی ہونے پر اکسایا؟اس حوالے سے محقق اور صحافی فاروق سلہریا بتاتے ہیں کہ، “اس موضوع پر زیادہ تحقیق نہیں ہوئی ہے، لیکن چند ماہرین تعلیم اور صحافیوں نے اس رجحان کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔”انہوں نے مزید کہاکہ”ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ کرکٹرز معاشرے کا حصہ ہیں، اور اسلام پاکستان میں ‘ایک کلچر’ بن چکا ہے۔ کرکٹرز، فلمی ستارے اور دیگر مشہور شخصیات صرف اس میں کود پڑتے ہیں،” ایک اور صحافی ندیم فاروق پراچہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کرکٹ کی اسلامائزیشن 2000 کی دہائی کے اوائل میں اس وقت شروع ہوئی جب تبلیغی جماعت نے کرکٹ کے کچھ سرکردہ کھلاڑیوں کو اپنے ارکان کے طور پر بھرتی کیا۔پراچہ کا مزید کہنا تھا کہ”ٹیم نے 2003 کے ورلڈ کپ میں بری کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھاجس کے بعد، اسکواڈ کو پہلے ہی میچ میں فکسرز ہونے کی وجہ سے جانچ پڑتال کی جا رہی تھی۔اس طرح مذہب کی طرف لگاو سے انہیں لگا کہ ان کے لئے توبہ کا دروازہ کھل گیا ہے اور فکسکنگ کی اس لت سے چھٹکارا پانے کے لئے کھلاڑیوں نے تبلیغی جماعت میں شمولیت اختیار کرلی ۔ان کا کہنا تھا کہ 2003 اور 2007 کے درمیان مذہبیت کی یہ نمائش عروج پر تھی،”

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here