آبادی کے تناسب سے جموں و کشمیر میں سرکاری ملازمین کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر میں مواقع کی کمی کی وجہ سے، جموں و کشمیر سرکاری ملازمتیں فراہم کرنے میں ،ملک کی تمام ریاستوں اور مرکزی زیر انتظام علاقوں میںپہلے درجے پرہے۔ دوسری جانب سرکاری ملازمتوں کے خواہشمندوں کی تعداد روز بہ روزآسمان چھو رہی ہے ۔بے روزگاری کی شرح حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ جو کبھی کبھی اس بیانے کے گرد گھومتی نظر آتی ہے کہ بے روزگاری کم ہوگی توامن اور استحکام لوٹ آئے گا
جموں و کشمیر میں سرکاری ملازمین کے بارے میں تکلیف دہ سچائی یہ ہے کہ اس شعبے میں سب سے زیادہ غیر تسلی بخش کارکردگی والے افراد کا غلبہ ہے۔ عام تاثر یہ تھا کہ سرکاری ملازمین انتہائی محنتی ہیں لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو یہاں آوے کا آواہی بگڑا ہوا ہے ، رشوت خوری نے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں ،ورک کلچر کا فقدان عروج پر ہے۔ کلاس فورتھ ملازم سے لے کر گریڈ 1 افسران تک ایسے عناصر موجود ہیں جن کی کارکردگی قابل تحسین نہیں ،بلکہ ایسے ملازم ،وہ جونک ہیں جو محض خون چوستی ہے ، اور خون چوسنے میں وہ صاف اور آلودہ خون کی کوئی تمیز نہیں کرتی ۔ ایسے ملازمین کی اس عدم کارکردگی کا خمیازہ عام لوگوں کو اٹھانا پڑتا ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ ایسے سرکاری ملازمین ہی ملکسے بے اعتنائی کی داستان کورقم کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ دوسری جانب یہاں کی سیاست، کاروبار اور میڈیا میں موجود ملک مخالف لوگ اسے ایک قدم اور آگے لے جاتے ہیں اور اسے ہندوستانی ریاست کے ساتھ عدم اطمینان کا نام دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں نے بہت چالاکی سے، بیگانگی کی یہ داستان کی بُنی ہے، اور اس کی وجہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے دل جیتنے میں بھارتی ریاست کی ناکامی کو قرار دیا گیا ہے۔ بات بس اتنی سی تھی جو ہمالیائی بن گئی۔ اس کے بعد سیاسی طبقہ اور تنازعات کے کاروبار کرنے والے ہیں ،جو اس انتہائی خطرناک لیکن مسخ شدہ بیانیے کے نیچے اپنے گناہ چھپاتے ہیں۔
ایل جی انتظامیہ نے حال ہی میںچند نا اہل اور بدعنوان سرکاری ملازمین کی خدمات ختم کر دی ہیں۔ جب یہ خبر لوگوں تک پہنچی تو ان کا کہنا تھا کہ جموں و کشمیر میں سرکاری ملازمین کی اکثریت کی کارکردگی اطمینان بخش نہیں ،ایک کثیر تعداد بدعنوان اور بے ایمان ہے۔تسلیم ! لیکن ان سب کوبہ یک جنبش قلم تو ہٹایا نہیں جا سکتا۔
گزشتہ شمارے میں، ہم نے تجویز دی تھی کہ LAWDAکے ملازمین کو،جوابداہ بنانا چاہئے کہ پانی کی طرح اگر پیسہ بہایا گیا پھر بھی ڈل جھیل میں گندگی کیوں نظر آتی ہے، یا تو LAWDA کو سر ے سے تحلیل کر دینا چاہیے۔یا پھر LAWDA ملازمین کی ترقیاں اور انہیں ملنے والی دیگر مراعات ڈل جھیل کی صفائی سے مشروط ہونی چاہئیں۔ اسی تشبیہ کو آگے بڑھاتے ہوئے، میں تجویز کروں گا کہ ملازمتوں میں ترقیاں،سالانہ انکریمنٹ اور دیگر مراعات ہر کسی سرکاری ملازم کی اپنے شعبے یا محکمے میں اس کی کارکردگی سے مشروط ہونی چاہئے۔ محکمہ کے سربراہوں سمیت ہر سرکاری ملازم کے بارے میں سالانہ ترقی کی رپورٹ کے لیے ایک علیحدہ واچ ڈاگ یا سرکاری ادارہ بنایا جائے۔ ترقیاں اور دیگر مراعات صرف اس ایجنسی کی سفارشات پر دی جائیں۔ مجوزہ سرکاری ایجنسی کی سفارشات پر غیر تسلی بخش کارکردگی کے حامل ملازمین کو نوکری سے بر طرف کیا جانا چاہیے۔اسی صورت میں نظام کو جوابدہ اور شفاف بنایا جاسکتا ہے ۔