کشمیر یونیورسٹی کے بعد، کشمیر کی مرکزی یونیورسٹی، گاندربل بدعنوانی اور اقربا پروری کا مرکز بن گیا ہے۔ یونیورسٹی کو کشمیر میں اعلیٰ ترین تعلیمی مرکز کے طور پر تصور کیا گیا تھا۔ سینٹرل یونیورسٹی کی فیکلٹی کی اکثریت کشمیر یونیورسٹی سے آئی ہے بشمول سابق وائس چانسلر پروفیسر معراج الدین میر۔ یہ انتہائی افسوس ناک اور ناگوار بات ہے کہ پروفیسر معراج نے تمام اصول و ضوابط کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اس ادارے کو اپنے خاندان کے افراد، رشتہ داروںاوران کے بچوں اور دوستوں کے لیے ڈمپنگ گراؤنڈ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
پروفیسر معراج الدین میر نے 2015 میں سنٹرل یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا عہدہ سنبھالا تھا۔ اس سے پہلے وہ کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ قانون میں 35 سال سے زیادہ کام کر چکے ہیں۔ جب انہوں نے وی سی کا عہدہ سنبھالا تو سنٹرل یونیورسٹی اپنے ابتدائی دور میں تھی۔ یونیورسٹی کو فزیکل اور تعلیمی دونوں طرح سے اپنا بنیادی ڈھانچہ بنانا تھا۔ اس کام میں کروڑوں کی سرمایہ کاری شامل تھی۔
واضح رہے کہ سابق ریاست جموں و کشمیر میں دو مرکزی یونیورسٹیاں ایک ہی وقت میں بنائی گئی تھیں۔ سنٹرل یونیورسٹی جموں نے معیاری تعلیم اور فزیکل انفراسٹرکچر کی تعمیر دونوں لحاظ سے نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔
سنٹرل یونیورسٹی کی حیثیت
آئیے سنٹرل یونیورسٹی کشمیر کی حیثیت کا جائزہ لیں۔ پروفیسر معراج، جو کشمیر یونیورسٹی کے سابق رجسٹرار اور کنٹرولر امتحانات تھے، نے سنٹرل یونیورسٹی میں اقربا پروری کے نئے معیار قائم کیے ہیں۔
پروفیسر معراج نے رجسٹرار پروفیسر محمد افضل زرگر کے ساتھ مل کر اپنی اہلیہ پروفیسر نگہت باسو کو شعبہ ایجوکیشن میں تعینات کیا۔ سنٹرل یونیورسٹی کشمیر میں 2015-16 تک صرف آٹھ سے دس شعبہ جات تھے۔ ان میں سے تین شعبہ ایجوکیشن کے تھے۔ یہ شعبہ ایجوکیشن، شعبہ ٹیچر ایجوکیشن اور ڈیپارٹمنٹ آف فزیکل ایجوکیشن تھے۔
پروفیسر معراج کے لیے ان شعبہ جات کا بنیادی مقصد اپنے رشتہ داروں کو جگہ دینا تھا۔ ٹیچر ایجوکیشن کا شعبہ خاص طور پر ان کی اہلیہ کے لیے قائم کیا گیا تھا تاکہ وہ انہیں وہاں پروفیسر مقرر کر سکیں۔
پروفیسر معراج نے کئی کمیٹیوں کی سربراہی کی جن کے پاس مالی اختیارات تھے۔ ان کی اہلیہ پروفیسر نگہت باسو ان کمیٹیوں کا حصہ تھیں۔ یونیورسٹی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ UT انتظامیہ یا مرکز سے کسی نے بھی پروفیسر معراج کے اخراجات کا کوئی نوٹس نہیں لیا ہے۔پروفیسر نگہت باسو پانچ سال قبل ریٹائر ہوئی تھیں۔ وہ دوبارہ کنٹریکٹ کی بنیاد پر اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے پر تعینات ہوئیں، اور اب بھی سنٹرل یونیورسٹی میں کام کر رہی ہیں۔
سینٹرل یونیورسٹی میں مزید خاندانی تعیناتیاں
اب کہانی اور بھی دلچسپ ہو جاتی ہے۔ پروفیسر معراج نے اپنے بیٹے حیدر کی ساس پروفیسر پروین پنڈت کو کنٹرولر امتحانات مقرر کیا۔ پروفیسر پنڈت کشمیر میں تعلیم کے شعبے میں کام کر رہی ہیں، اس لیے ان کی سینٹرل یونیورسٹی میں تقرری پروفیسر معراج کے لیے آسان تھی۔ اس نے مذکورہ اسامی کے انتخابی عمل کے لیے اپنی پسند کے ماہرین کو بلایا۔ ماہرین کو بتایا گیا تھا کہ موٹی تنخواہوں والی ان اسامیوں کے لئے کس کو منخب کرنا ہے اور کس کو نہیں ۔ اس طرح پروفیسر معراج نے اپنے عہدے کو ہوشیاری سے استعمال کرتے ہوئے اپنے خاندان کے ساتھ مٹھائیاں بانٹیں اور سنٹرل یونیورسٹی میں گھریلو ماحول پیدا کیا۔
کنٹرولر امتحانات کی حیثیت سے ریٹائر ہونے کے بعد پروفیسر پروین پنڈت پھر سے مصروف ہو گئی۔ یہ صرف سابق وائس چانسلر کی جانب سے رجسٹرار پروفیسر ایم اے زرگر کی ملی بھگت سے کی گئی جعلی تقرریوں کا آغاز تھا۔
ڈاکٹر معراج نے اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے اپنے بیٹے حیدر اور بہو کو بابا غلام شاہ یونیورسٹی میں تعینات کرایا۔ پروفیسر معراج نے سب سے پہلے اپنی بہو کو کشمیر یونیورسٹی میں تعینات کیا۔ لیکن جعلی تقرری کی خبر اخبارات میں آنے کے بعد ڈاکٹر معراج نے بابا غلام شاہ یونیورسٹی میں اپنی بہو کے لئے بطور اسسٹنٹ پروفیسر تقرری حاصل کر لی۔
ڈاکٹر معراج کے سر پر ایک اور تاج یہ ہے کہ انہوں نے اپنی بیٹی کو کشمیر یونیورسٹی کے ہیلتھ سنٹر میں ڈاکٹر کے طور پر تعینات کرایا۔ اس بار ان کی مدد پروفیسر خورشید اندرابی نے کی، جو کشمیر یونیورسٹی کے بدنام زمانہ سابق وائس چانسلر رہے ہیں۔ جعلی تقرری کو میڈیا نے اجاگر کیا، اور ویجی لنس ڈیپارٹمنٹ پروفیسر خورشید اندرابی کے سرکاری عہدے کے غلط استعمال کی تحقیقات کر رہا ہے۔
ڈاکٹر معراج اور پروفیسر زرگر کا سنٹرل یونیورسٹی میں باہمی تعاون خوشگواررہا ہے، اور ایک دوسرے پر احسانات کی بارش بھی کی ہے۔
پروفیسر افضل زرگر اس سے قبل کشمیر یونیورسٹی میں رجسٹرار تھے۔ رجسٹرار کے طور پر ان کی مدت ملازمت ختم ہونے کے بعد، انہیں ڈیپوٹیشن پر لے جایا گیا اور وہ سینٹرل یونیورسٹی میں بطور پروفیسر شامل ہو گئے۔ قواعد کے مطابق، پروفیسر زرگر کو سینٹرل یونیورسٹی میں پروبیشن پر ایک سال مکمل کرنا تھا اس سے پہلے کہ وہ رجسٹرار کے عہدے کے لیے زیر غور آئیں۔ چیزوں کی ایک آسان اسکیم میں، پروفیسر معراج اور پروفیسر زرگر نے پروبیشن کی مدت ختم ہونے کا انتظار کیا۔ اس کے بعد پروفیسر زرگر نے سینٹرل یونیورسٹی میں بطور رجسٹرار شمولیت اختیار کی۔ اس وقت تک ڈاکٹر فیاض نیکا کو رجسٹرار کا عبوری چارج دیا گیا تھا۔
اعلیٰ تعلیمی اداروں کی سمجھ نہ رکھنے والا کوئی سادہ لوح ہی یہ سوال پوچھے گا کہ پروفیسر معراج اور پروفیسر زرگر کیوں رجسٹرار کی کرسی پر فائز ہونے کے خواہشمند
تھے۔ دراصل راجسٹرار کے پاس یونیورسٹی کے تمام اختیارات کی تاریں ہوتی ہیں۔ ایک یونیورسٹی کے لیے مختص ریاستی گرانٹس کا خرچ سینکڑوں کروڑ میں چلا جاتا ہے۔ یہ رقوم رجسٹرار کے ذریعے بھیجی جاتی ہیں۔ پروفیسر معراج بطور وائس چانسلر اور پروفیسر زرگر بطور رجسٹرار، یہ دونوں یونیورسٹی کے فنڈز کا غلط استعمال کرنے کے لیے موزوں پوزیشن میں تھے۔
وائس چانسلر شپ کے لئے کھیل جاری
پروفیسر معراج اس سال ریٹائر ہوئے۔ سنٹرل یونیورسٹی میں اب اس بات پربحث و مباحثہ گرم ہے کہ پروفیسر زرگر کو وی سی کےعہدہ پر فائز ہونا چاہیے۔ تاکہ سینٹرل یونیورسٹی میں ہونے والی بددیانتی کو آرام دہ رفتار سے جاری رکھا جائے، پروفیسر معراج اس بات کے خواہاں ہیں کہ پروفیسر زرگر کو وائس چانسلر کا عہدہ سنبھالنا چاہیے۔ دونوں کی یہ خواہش بھی ہے کہ پروفیسر زرگر کو وائس چانسلر بننا چاہیے تاکہ خوشامدی اتحاد کی جانب سے کیے گئے فراڈ اور گھپلے خفیہ رہ سکیں اور یونیورسٹی میں اقربا پروری جاری رہے۔
یو جی سی کے رہنما خطوط کے مطابق، سب سے سینئر فیکلٹی ممبر موجودہ وایس چانسلرکی ریٹائرمنٹ کے بعد وائس چانسلر کا چارج سنبھالتا ہے۔ اس اصول کے مطابق پروفیسر عبدالغنی کی سینٹرل یونیورسٹی کے وائس چانسلر بننے کی باری ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پروفیسر معراج اور پروفیسر زرگر پوری کوشش کر رہے ہیں کہ ڈاکٹر عبدالغنی کرسی پر نہ بیٹھیں کیونکہ ان کا شمار ایماندار ا فراد میں کیا جاتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں کو خدشہ ہے کہ اگر پروفیسر عبدالغنی وائس چانسلر بن گئے تو ان کی بدعنوانیاں اور دھوکہ دہی بے نقاب ہو جائے گی۔
فی الحال ڈاکٹر فاروق شاہ کو سینٹرل یونیورسٹی کشمیر کے وائس چانسلر کا عبوری چارج دیا گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر فاروق شاہ کا تعلق پروفیسر معراج کی لابی سے ہے۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب تک ڈاکٹر شاہ وی سی کی کرسی پر براجمان ہیں، پروفیسر معراج اور پروفیسر زرگر آرام دہ جگہ پر ہیں اور انہیں اس بات سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ان کی غلطیاں بے نقاب ہو جائیں گی۔ذرائع کے مطابق یونیورسٹی میں اس بات پر کافی شور و غوغا تھا کہ ڈاکٹر فاروق شاہ کو بطور وائس چانسلر سینئر ترین فیکلٹی ممبر پروفیسر غنی کو نظر انداز کرتے ہوئے عبوری چارج کیسے دیا گیا۔
کچھ پروفیسر عبدالغنی اور پروفیسر فاروق شاہ کے بارے میں
پروفیسر عبدالغنی اور پروفیسر فاروق شاہ دونوں کا تعلق سینٹرل یونیورسٹی کے شعبہ مینجمنٹ اسٹڈیز سے ہے۔پروفیسر عبدالغنی کے پاس تدریس اور تحقیق کا 28 سال سے زیادہ کا تجربہ ہے۔ انہیں اصولوں کا پابنداور راست اخلاق آدمی سمجھا جاتا ہے۔ پروفیسر غنی پہلے کشمیر یونیورسٹی میں پروفیسر اور پھر ریجنل ڈائریکٹر IGNOU تھے۔ اب وہ سینٹرل یونیورسٹی کشمیر میں پروفیسر ہیں۔
پروفیسر فاروق شاہ پروفیسر غنی کے شاگرد رہے ہیں۔ شاہ پہلے ایک کالج میں پڑھاتے تھے۔ انہوں نے سینٹرل یونیورسٹی میں بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر شمولیت اختیار کی۔
جب’ کشمیر سنٹرل‘ کی طرف سے پروفیسر معراج الدین سے سینٹرل یونیورسٹی کشمیر میں ان کی غلطیوں کے بارے میں رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا، “میں کال پر جواب نہیں دے سکتا۔ میں آپ کو ای میل یا واٹس ایپ پر بھی جواب نہیں دے سکتا۔ آپ گھرآ سکتے ہیں میں آپ سے بات کروں گا۔‘‘ جب’ کے سی‘ نمائندے نے پروفیسر معراج سے پوچھا کہ کیا وہ ان کی رہائش گاہ پر ملیں گے، تو انہوں نے جواب دیا: “آپ کی سہولت کے مطابق میں کچھ نہیں بتا سکتا۔ یہ آپ کی پسند ہے۔ آپ اگلے ہفتے آ سکتے ہیں۔فی الحال میرے خاندان کے افراد اسٹیشن سے باہر ہیں۔ ایک بار جب وہ واپس آجائیں تو آپ کا استقبال ہے۔
السلام علیکم
بہت مبارک اس پورٹل کو ذولسانی بنانے کے لیے
سنٹرل یونیورسٹی کے تعلق سے رپورٹ چشم کشا ہے.