اارب پتی تاجر فہد زرو نے کرال سنگری میں 674 کنال جنگلات/ریاستی اراضی پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے؟

600
 اراضی کی بندر بانٹ 

کیا یہ سچ ہے کہ کشمیر کے ارب پتی تاجر فہد نذیر زارو نے گگری بل جنگلات میں کرال سنگری میں قریب 674کنال جنگلاتی /ریاستی اراضی پر غیر قانونی طورقابض ہے ؟

سرکاری افسران نے ” کے زین “ کو بتایا کہ فہد زارو اراضی پر ناجائز طور قابض ہے ، وہاں کام کرنے والے مزدوروں کے مطابق وہ خضر گروپ آف کمپنیز کے لئے کام کرتے ہیں اور زمین کا مالک فہد زارو ہے۔حکام نے” کے زین “کو بتایا کہ زارو نے کرال سنگری میں جنگلات اور محصولات کے محکموں کے کچھ اہلکاروں کی ملی بھگت سے جنگلاتی/ ریاستی اراضی کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیا ہے۔ پولیس نے نوٹس لیتے ہوئے مذکورہ شخص کی سرکاری اراضی پر قبضے کی کوشش ناکام بنا دی اس سلسلے میں، تھانہ نشاط کے ایس ایچ او نے ایف آئی آر 113/زیر دفعہ 21/s 188، 447 IPC درج کی ہے۔
ابتدائی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ فہد زارو نے حکومت سے کروڑوں روپے کی زمین کا فراڈ کرنے کی کوشش کی پولیس ذرائع کے مطابق زارو نےجعلی دستاویزات پیش کرکے زمین کی ملکیت کا دعویٰ کیا ہے۔زارو خضر گروپ آف کمپنیز کے منیجنگ ڈائریکٹر ہے۔ وہ خضر ایلیگینٹلی ٹائم لیس، خضر ہاسپیٹیلیٹی پرائیویٹ لمیٹڈ میں منیجنگ ڈائریکٹر، خضر ایگرو پرائیویٹ لمیٹڈ میں منیجنگ ڈائریکٹر اور رائل خضر ہوٹلز اینڈ ریزورٹس پرائیویٹ لمیٹڈ میں ڈائریکٹر ہیں۔ وہ شنکر آچاریہ پہاڑ ی سلسلے کے دامن میں قائم آر کے سروور پورٹیکو کے شریک مالک بھی ہے، فی الوقت زارو عرب امارات کے شہر مسقط میں مقیم ہے ۔
غیر قانونی طور پر قبضہ شدہ اراضی پر تعمیرات
سرکاری اہلکاروں نے نام اور شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر ”کے زین “کو بتایا کہ کہ زارو نے نہ صرف مذکورہ اراضی پر غیر قانونی قبضہ جمایا بلکہ وہاں تعمیری سرگرمیاں بھی شروع کردیں ۔ ان اہلکاروں کا کہنا تھا کہ تعمیراتی کام کے لئے چیڑ، دیودار اور اخروٹ کے بے شمار درخت کاٹے گئے ، دعوے کی حقیقت جاننے کے لئے ”کے زین “ٹیم جب جائے وقوع پر معائنے کے لئے پہنچی تو وہاں درجنوں درختوں ،جنہیں کاٹ دیا گیا تھاکے محض تنے پائے گئے ۔معاملے کی پول کھل جانے کے بعد فوری طور پر کاٹے گئے درختوں کو نامعلوم جگہ پر منتقل کیا گیا ، اس لئے شواہد اکھٹے نہیں کئے جاسکے۔صنوبر (Pine) شاہی درخت مانا جاتا ہے جبکہ اخروٹ کے درخت کو قانونی تحفظ حاصل ہے اور مخصوص درختوں کے زمرے میں آتا ہے ۔ قوانین کے مطابق، شاہی اور مخصوص زمرہ جات کے درختوں کو نجی زمین پرموجودہونے پر بھی کاٹا نہیں جا سکتا۔ پبلک سیفٹی ایکٹ کا سیکشن 8 ڈپٹی کمشنر یا ڈویژنل انتظامیہ کو جنگلات کے اسمگلروں کے خلاف تحقیقات کا اختیار دیتا ہے۔لیکن اس معاملے وہاں بھی کوئی کارروائی نہیں ہوئی ۔
محکمہ جنگلات الجھن کا شکار کیوں ؟
ایسا لگتا ہے کہ محکمہ جنگلات جموں و کشمیر کے افسران کرال سنگری میں زمین پر غیر قانونی قبضے کے سلسلے میں مخمصے کے شکار ہیں۔ ”کے زین“ کے ساتھ بات چیت میں، افسران نے یہ کہہ کر زمین پر قبضے کے اسکینڈل کی ذمہ داری سے کنارہ کشی اختیار کرنے کی کوشش کی کہ یہ علاقہ ان کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔ڈسٹرکٹ فاریسٹ آفیسر سید عابد نے ”کے زین “کو بتایا کہ جس علاقے میں کٹائی یا تعمیر کی گئی ہے وہ جنگلاتی اراضی نہیں ہے۔ ڈی ایف اونے کے زین کو بتایا کہ “یہ علاقہ ملکیتی زمین ہے۔”
اگر یہ ملکیت کی زمین ہے تو یہاںانہدامی کارروائی کیسے ہوئی؟ نیز دیودار اور اخروٹ کے درخت بھی ملکیتی اراضی پر موجود ہوں تو انہیں کاٹا نہیں جاسکتا۔جب اس بارے میں مذکورہ آفسر سے سوال کیا گیا تو ڈی ایف او سید عابد نے ” کے زین “کو بتایا، “پولیس ڈیپارٹمنٹ اور LCMA (جھیل کنزرویشن اینڈ مینجمنٹ اتھارٹی) اس کا بہتر جواب دے سکتے ہیں۔ جنگل کی زمین کے اپنے حد بندی بورڈ ہیں، اور آپ جس علاقے کا ذکر کر رہے ہیں وہ ان حدود سے باہر ہے۔جب ”کے زین “ٹیم نے علاقے کا دورہ کیا تو محکمہ پولیس، ڈپٹی کمشنر آفس اور وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کے افسران وہاں موجود تھے۔ محکمہ جنگلات کے رینج آفیسر نے کہا کہ کل رقبہ جس پر غیر قانونی طور پر قبضہ کیا گیا ہے اس میں تقریباً 674 کنال سرکاری اراضی شامل ہے جس میں سیکشن 4 (کاہچرائی ) اور سیکشن 5 (شاملات) اراضی شامل ہے۔
سیکشن 4 (گھاس ، کاہچرائی زمین): لوگ اس زمین کو صرف ڈھور ڈنگرچرانے کے مقاصد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں لیکن تعمیرات اور زرعی مقاصد کے لیے نہیں۔ اس زمین پر کسی فرد کی کوئی قانونی ملکیت نہیں ہے۔دفعہ 5 : یہ ملکیتی زمین سے متصل زمین ہے جو درختوں کے سائے تک محدود ہے۔ سیکشن 5 اراضی ملکیت کی زمین میں اس مقام تک شامل ہے جہاں کچھ درخت کھڑے ہو سکتے ہیں۔
 تعمیراتی سرگرمیاں۲ماہ سے جاری
 کرال سنگری کے رہائشیوں نے ”کے زین “کو بتایا کہ اس زمین پر پچھلے دو ماہ سے تعمیرات جاری ہیں۔ مکینوں کا کہنا تھا کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ محکمہ جنگلات کو ان تجاوزات کے بارے میں اور اس علاقے میں داخل ہونے والے گیٹ کی رکاوٹ کے بارے میں بھی علم نہ ہو۔ مین روڈ سے گیٹ صاف دکھائی دے رہا ہے۔ایک سرکاری اہلکار نے جو اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا نے ”کے زین “کو بتایا کہ فہد زارو کی جانب سے زمین کی ملکیت کا دعویٰ کرنے والی دستاویزات کو ہم نے ضبط کیا ہے۔مذکورہ اہلکار نے بتایا کہ زارو کرال سنگری میں 674 کنال اراضی کی ملکیت کا دعویٰ کر رہا ہے۔ اس میں سے 100 کنال جنگلاتی اراضی ہے جس پر ناجائز قبضہ کیا گیا ہے۔ اہلکار نے یہ بھی بتایا کہ حکومت کی جانب سے زارو کو 574 کنال پٹے پر دی گئی تھی۔اہلکار یہ نہیں جانتا تھا کہ آیا زارو کے پاس پٹے کے لیے قانونی دستاویزات ہیں، یا اس سے زمین کس نے پٹے پر دی تھی۔
جھیل کنزرویشن اینڈ منیجمنٹ اتھارٹی (LCMA) کی طرف ڈھانچوں کا انہدام چشم شوئی
جب تعمیراتی سرگرمیاں ممنوعہ جنگلاتی علاقے کے ارد گرد کی گئی تھی، تو LCMA نے لوہے کے چند کھمبے اور باڑ کو گرا دیا۔ واضح رہے کہ ایل سی ایم اے نے فہد زارو کے خلاف یا کسی نامعلوم مجرم کے خلاف شکایت درج نہیں کرائی۔” کے زین “ نے اس سلسلے میں LCMA انفورسمنٹ آفیسر DySP عبدالعزیز قادری سے رابطہ کیاتو قادری نے کہا، “میں طبی چھٹی پر ہوں۔ براہ کرم کسی اور افسر سے پوچھیںاور اپنی ذمہ داری سے پلو جھاڑ دیا۔”کے زین “ نے ا یک اور انفورسمنٹ آفیسر DySP زاہد سے جب رابطہ کیا توا نہوں نے کہا، “میں آپ کے سوالات کا جواب نہیں دے سکوں گا۔ یہ علاقہ قادری صاحب کے ماتحت آتا ہے۔ اس نے کل اپنی ٹیم بھیجی تھی پولیس اور محکمہ جنگلات کے افسران بھی موجود تھے۔ انہوں نے اعتراض اٹھایا کہ کچھ کھمبے اور باڑ غیر قانونی ہے تو ہماری ٹیم نے انہیں گرا دیا۔ ابھی تک، ہم نے صرف کچھ پول مسمار کیے ہیں۔ باقی کی تصدیق محکمہ جنگلات اور محکمہ مال کے اہلکارکے ذریعے کی جائے گی – کہ آیا زمین قانونی طور پر زیر قبضہ ہے یا غیر قانونی طور ۔
ایل سی ایم اے نے غیر قانونی تعمیرات اور تجاوزات کی ایف آئی آر کیوں درج نہیں کی؟ ڈی وائی ایس پی زاہد نے جواب دیا کہ ایف آئی آر صرف بڑی تعمیرات کے حوالے سے درج ہوتی ہے۔ ڈی وائی ایس پی زاہد کے مطابق تقریباً دو سے تین کنال اراضی پر کھمبے اور باڑ گرائی گئی۔LCMA کی طرف سے کھمبوں کی مسماری اور باڑ لگانے سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ زمین پر غیر مجازتنصیبات تھیں۔ یہ عجیب بات ہے کہ محکمہ نے قیمتی سرکاری اراضی پر ناجائز قبضوں کے حوالے سے کوئی ٹھوس کارروائی شروع نہیں کی۔علاقے کا دورہ کرنے والے ایک پولیس افسر نے بتایا کہ زارو اور ان کی ٹیم نے زمین پر کچھ ہٹ تعمیر کئے ہیں۔ LCMA نے ایک ہٹ کی صرف ایک کھڑکی اکھاڑلیہے۔ دوسرے ڈھانچے جوں کے توں کھڑے ہیں
خضر گروپ کے کارکن موقع پر موجود!
فیاض احمد، جو خضر گروپ کے ساتھ کام کرتے ہیں، اس وقت موقع پر موجود تھے جب ڈی سی اور محکمہ مال، محکمہ جنگلات، محکمہ وائلڈ لائف اور ایل سی ایم اے کے افسران نے کرال سنگری کا دورہ کیا تاکہ ان کے دائرہ اختیار میں زمین پر ہونے والی خلاف ورزیوں کا جائزہ لیا جا سکے۔ .فیاض نے ”کے زین “کو بتایا،انہیں یہاں کوئی تعمیراتی سامان یا مزدور نہیں ملاتاہم حکام نے ہمیں بتایا کہ حدود میں کوئی تار کی باڑ نہ لگائی جائے۔ ہمارے پاس صرف ثمر باردرخت ہیں۔ ہمارے یہاں دیودار کا کوئی درخت نہیں ہے۔ سینکڑوں کنال اراضی جوزرعی زمین ہے، فہد زارو کی ملکیت ہے۔فیاض نے مزید کہا کہ یہاں جو ہٹ تعمیر کی گئی ہیں وہ سیاحوں کے لیے ہیں، لیکن وہ ابھی تک فعال نہیں ہیں۔جب ”کے زین“ کی طرف سے پوچھ تاچھ کی گئی تو، اس علاقے کی نگرانی کرنے والے سیکیورٹی گارڈ نے کہا کہ یہاں انہدامی سرگرمی نہیں ہوئی “یہاں سے کچھ تاریں ہٹا دی گئی تھیں۔ باو ¿نڈری کی تاریں ہٹانے والوں نے کہا کہ یہ جنگل کی زمین ہے اس لیے اس پر کسی بھی طرح باڑ نہیں لگائی جا سکتی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here