دیر آید درست آید

520

 

کشمیر کی سیول اور فوجی انتظامیہ نے حال ہی میں شالٹنگ کی یادگار فتح پر ایک تقریب کا انعقاد کیا ، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس فتح کا جشن تسلسل کے ساتھ جاری رہتا لیکن ماضی میں مقامی حکمرانوں نے اپنے مفادات کو قومی مفادات پر زیادہ ترجیح دی۔خیر دیر آید درست آید، سرینگر میں مقیم فوج کی پندرہویں کور نے جوش وخروش کے ساتھ اس دن کو یاد کیااورپھرفتح کی مناسبت سے منعقد پروگرام میں عام لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی،فوج نے 7نومبر 1947کی تمثیل بھی پیش کی۔مذکورہ فیصلہ کن لڑائی شالٹنگ کے مقام پر پاکستان کے پشت پناہی والے قبائلی حملہ آوروں اور بھارت کے فوجیوں کے مابین ایک فیصلہ کن معرکہ تھا جس میں ہار کا سامنا کرنے والے قبائلیوں نے کشمیر سے فرار کی راہ اختیار کرلی ،المیہ یہ ہے کہ مفرور قبائلیوں نے راستے میں لوٹ مار آتش زنی ،عصمت دری اور قتل غارت کا بازار گرم کیا تھا ،ان واقعات میں ہزاروں کشمیری مرد و زن ،بچے اور بوڑھے شامل ہیں جنہیں آج کے نام نہاد انسانی حقوق کے علمبردار فراموش کربیٹھے ہیں ،جن قصبوں میں سب سے زیادہ لوٹ مار اور چنگیزیت کے سارے ریکارڈ توڑ دالے گئے ان میں خصوصی طور اوڑی ،بارہمولہ اور پاکستان کے زیر قبضہ کشمیرکی راجدھانی مظفر آباد اور شمالی سرینگر کے مضافاتی دیہات سب سے زیادہ متاثر ہوئے،
شالٹنگ کی فیصلہ کن لڑائی فوج نے سری نگر میں اترتے ہی شروع کردی جن کے شانہ بشانہ مقامی آبادی بھی حملہ آوروں کا مقابلہ کرنے کے لئے نکل چکی تھی۔یہی وہ وقت تھا جب وادی کی فضائیں اس مقبول اور ولولہ انگیز نعرے سے گونج اٹھی © © © © حملہ اور خبردار ہم کشمیری ہیں تیار، سرزمین کشمیرکے مایہ ناز اور قابل فخر سپوت محمد مقبول شیروانی نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا ہی تھا جب اس نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ قبائلی حملہ آوروں کو سرینگر کی جانب پیش قدمی سے بھٹکادیا ،شیروانی کے اس جرات مندانہ اقدام سے قبائلیوں کی پیش قدمی سست روی کا شکار ہوئی ،شیروانی کو پٹھان حملہ آورں کے غیض کا سامنا کرنا پڑا جنہوں نے وطن کے اس جیالے سپوت کو بڑی بے رحمی اور بے دری سے شہادت کے مرتبے تک پہنچایا،نومبر 7کشمیر میں کبھی یاد نہیں رکھا گیا۔آہستہ آہستہ اس دن کی یادیں ہمارے اسلاف کے ساتھ ہی ماند پڑ گیئں جوں جوں وہ رخصت ہوتے گئے ہماری نئی نسل اس دن کی اہمیت سے دور ہوتے گئے یہاں تک کہ ہمیں یہ بھی یاد نہیں تھا کہ آخر ہوا کیا تھا کشمیر میں ، نہ تو یہ دن کبھی نصاب کا حصہ بنا اور نہ مروجہ تاریخی کتب کا ،اس کی بجائے ہماری نیی نسل کو کشمیر کی موجودہ تاریخ کے متعلق من گھڑت اور مسخ شدہ حقائق کا مربہ کھلایا گیا جس نے ان کے اذہان کو روشن کرنے کی بجائے پراگندہ کردیا
ابھی بھی دیر نہیں ہوئی یا یوں کہیں دیر کبھی بھی نہیں ہوتی ، بس ضرورت تھی تو اتنی کہ پاکستانی منصوبوں ،ان کی چالوں اور حملہ آوروں کی حقیقت کو آشکار کیا جاتا ،فوج کے ساتھ کشمیریوں کے اس تعاون کا ذکر ہوتا جس نے اس فیصلہ کن لڑائی سے کشمیر کو لالچ اور فرقہ واریت کی قربان گاہ بننے سے بچا لیا۔اس جیت کو ہماری اجتماعی یاداشت کا حصہ بننا تھا۔
خیال رہے کہ بس یہ ایک واقعہ نہیںہے جس پرسیول اور فوجی انتظامیہ یادگاری تقاریب منعقد کررہی بلکہ گزشتہ دو ایک برس کے دوران کئی اہم اور فراموش شدہ تاریخی واقعات کو ازسر نو کھنگالا جارہا ہے تاکہ تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں اورآنے والی نسلوں کو کشمیر میں پاکستان کے مکروہ اور ناپاک عزائم کے کھیل سے باخبر رکھا جائے اسی مناسبت سے مشہور فارسی ضرب المثل کا اطلاق یہاں مناسب طور پرہوتا ہے” دیر آید درست آید”

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here