زمین خوری کا اصل سچ ’احمد کی پگڑی محمود کے سر’ ذمہ دار محکموں کی آپسی ا لزام تراشی

610
 
جموں وکشمیر میں اراضی کاخرد برد یا زمین خوری کوئی اتفاقیہ یا تن تنہا انجام دیا گیا کارنامہ نہیں ہے بلکہ یہ انتظامی نااہلی اور انتظامی مشینر ی کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے کیونکہ انتظامیہ میں موجود نااہل و رشوت خور اہلکار وں نے دیدہ دلیری سےزمین خور طبقے کے مفادات کی آبیاری کی اور اس مافیا کو فروغ دینے میں اپنا دست تعاون پیش کیا ہے,اس بات پر عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ یہ لوگ جان بوجھ کر کور چشمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے  غیرقانونی قبضوں کو دوام بخشنے میں کس طرح پیش پیش رہیے ہیں۔
 
 کرالہ سنگری نشاط میں زمین خوری کا چمکتا چہرہ اگرچہ فہد نذیر زارو ہے لیکن اس چہرے کو چمکانے میں مختلف محکموں کے افسران کی ایک پوری کہکشاں ان کے شانہ بہ شانہ کھڑی رہی ہیے۔جنہوں نے دیدہ دلیری کو ممکن بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ ’کشمیر سنٹرل ‘نے گزشتہ شماروں میں کئی صفحات سیاہ کرکے قارئین کے سامنے زارو کی دیدہ وری اور غنڈہ گردی کو صرف حیران ہونے کے لئے پیش نہیں۔ بلکہ خطے کے طول و عرض میں دہشت پسندی کی آڑ میں خالصہ سرکار، شاملات ، کاہچرائی اور جنگلاتی اراضی کس طرح سیاستدانوں سے لے کر سرکاری عہدیداروں و افسروں نے بندر بانٹ کرکے کیسے ہضم کرلیا ہے، آئے آنے والے صفات میں پوری کہانی سے روشناس ہو جاتے ہیں۔
فہد زارو نے کرال سنگری سے گزرنے والی ایک آبپاشی نہر کی بھرائی کرکے سڑک میں بدل دیا ہے ۔ KZINE کے 21ویں ڈیجیٹل ایڈیشن میں، ہم نے کرالہ سنگری میں جنگلاتی اراضی پر طاقتوروں اور صاحب اختیار لوگوں کے ساتھ ساتھ فہد زارو کی جانب سے قبضے کی کہانی پیش کی تھی آج اسی سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر آپ کو چند دہائیاں قبل تک معروف آبپاشی نہر ’’ شراب کوہل ‘ کی معدومی کی داستان سناتے ہیں کہ ان قیمتی اور غیر ملکیتی جنگلات تک رسائی حاصل کرنے کے لئے زارو نے یہ سب کس طرح طاقتور او ر صاحب اختیار لوگ ، جو ریاستی انتظامیہ کے اہم اداروں میں تعینا ت تھے کے آشیر باد سے حاصل کیا۔
رینج آفیسر وائلڈ لائف کے متضاد جوابات-(UT)انتظامیہ کے محکمہ جنگلی حیات نے 6 نومبر 2021 کو اس علاقے میں جاری تجاوزات کا کام رو ک دیا ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ محکمے کے اہلکاروں نے فہد زاروکے خلاف نہ تو ایف آئی آر درج کرائی اور نہ ہی کسی قسم کی شکایت کی۔ جبکہ زارو کے خلاف پولیس تھانہ نشاط کے ایس ایچ او نے 7نومبر کو از خود ایف آئی آر کاٹی۔8نومبر کو وائلڈ لائف ڈویژن کے ڈسٹرکٹ رینج آفیسر الطاف احمد نے ڈی ایف او اربن فارسٹ آفیسرکو ایک خط زیر نمبر SPR/2021/649-51 لکھا ۔ سرکاری ریکارڈ میں محفوظ خط کا مضمون کچھ یوں ہے !
 فہد نذیر زارو نے محکمہ وائلڈ لائف کی ایل سی ایم اے اور این او سی کی اجازت کے بغیر منطقہ حائل اورماحولیات کے لحاظ سے حساس ترین علاقے میں درختوں کو کاٹ کر لوہےکے کھمبے کھڑے کر دیے ہیں۔ احمد نے یہ بھی لکھا کہ تماممقبوضہ علاقہ محکمہ وائلڈ لائف کا ہے اور یہ علاقہ محکمہ جنگلات کو شجرکاری اور دیگر متعلقہ کاموں کے لیے دیا گیا تھا۔تاہم 12 نومبر کو اس نے اپنا موقف بدل دیا۔ اس نے تھانہ نشاط کے ایس ایچ او کو درج ذیل خط لکھا: “یہ علاقہ ہمارے انتظامی کنٹرول میں نہیں ہے، اس لیے اس دفتر کی طرف سے اس حوالے سے کوئی رپورٹ پیش نہیں کی جانی تھی۔ تاہم چونکہ ابھی تک علاقے کی حد بندی نہیں کی گئی ہے، اس لیے ایسی کسی بھی سرگرمی میں عملہ نیک نیتی سے مداخلت کرتا ہے، لیکن ہمارے ڈویژن کو اس سلسلے میں آگاہ کر دیا گیا ہے۔ وائلڈ لائف ایریا سے باہر ہونے والی سرگرمیاں گارڈ بک میں درج نہیں ہوتی جب تک کہ یہ جنگلی حیاتیات کے تئیں کسی جرم سے متعلق نہ ہو۔ یہ معلومات وائلڈ لائف ڈویژن کے ڈسٹرکٹ رینج آفیسر نے خط نمبر 314-16/BB میں فراہم کی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 8 نومبر سے 12 نومبر کے درمیان ایسا کیا ہوا کہ وائلڈ لائف ڈویژن کے ڈسٹرکٹ رینج آفیسر نے جنگلاتی اراضیپر غاصبانہ اور غیر قانونی قبضے کے حوالے سے اپنا موقف نمایاں طور پر نرم کیا؟ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ اس کی کوئی معقول وجہ ہو سکتی ہے کہ وائلڈ لائف ڈویژن کے ڈسٹرکٹ رینج آفیسر نے اس پر اپنا موقف تبدیل کر لیا۔ تاہم، یہاں کسی پوشیدہ سودےکے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
 ہم ڈسٹرکٹ رینج آفیسر سے اتفاق کر سکتے ہیں کہ زمین محکمہ وائلڈ لائف کے دائرہ اختیار میں نہیں آتی۔ پھر کس چیز نے محکمہ کے ڈسٹرکٹ رینج آفیسر کو تجاوزات کے خلاف کارروائی شروع کرنے اور اس سلسلے میں سرکاری خط لکھنے پر اکسایا؟ یہ اس پیچیدہ کیس کے حوالے سے دوسرے سوالات ہیں جو مکمل تحقیقات کے متقاضی ہیں ۔
اس سیکشن کے پہلے صفحہ پر بڑی اور دلیرانہ سرخی کے ساتھ اسے ایک الگ سیکشن کے طور پر لیا جانا ہے۔
انتظامیہ با خبر تھی ، ازالہ مرحلہ وار
 ڈپٹی کمشنر اعجاز اسد نے سٹیلمنٹ کمیٹی تشکیل دی
10 نومبر کو ڈپٹی کمشنر اعجاز اسد کی جانب سے ایک سیٹلمنٹ کمیٹی تشکیل دی گئی۔ ڈپٹی کمشنر نے محکمہ وائلڈ لائف کو لکھا، “آپ محکمہ جنگلات، ریونیو اور ڈیمارکیشن ڈویژن کے متعلقہ عملے کے ساتھ ذاتی طور پر جائے وقوعہ کا دورہ کر کے اور طبعی طور پرمشاہدہ کریں ساتھ ہی متعلقہ ایس ایچ او تھانہ نشاط کے مشاہدات اور حقائق پر مبنی رپورٹ تیار کر کے جلد از جلد دفتر ہذا کو پیش کریں ۔ کیونکہ اس سلسلے میں مزید ضروری کارروائی کے لیے آپ کی سفارشات کا انتظار ہے۔ذرائع کے مطابق محکمہ جنگلات نے اس معاملے کے حوالے سے سروے کیا ہے۔ تاہم ابھی تک رپورٹ پیش نہیں کی گئی۔
کیا حد بندی ٹیم دستاویزات اور ان کی رپورٹ کی تصدیق میں عادل ہوگی؟
اس سوال کا جواب شاید ایک اور سوال سے دیا جا سکتا ہے۔ حد بندی ٹیم کے ارکان کون ہیں؟
جب کشمیر سنٹرل نے ان اہلکاروں کے بارے میں چھان بین کی تو ہمیں معلوم ہوا کہ ریونیو حکام کے خلاف بہت سی عوام کی جانب سے کافی زیادہ شکایات درج کی گئی ہیں جو اس حد بندی ٹیم کے ارکان ہیں ان افسران کے خلاف مختلف موقعوںپر دھوکہ دہی ، جعلسازی اور سیاست دانوں ، لال فیتہ شاہوں ،ارب پتی تاجروں کو غیر قانونی طریقوں سے اراضی منتقل کرنے جیسے الزامات کا سامناہے ، اور قوی امکان ہے کہ یہ تمام اہلکار ان کاموں میں ملوث بھی رہے ہیں ۔محکمہ مال کے حکام کی اس بے حسی کی وجہ کیا ہے؟ سوال کا جواب بہ آسانی مل جاتا ہے۔ شہریوں کی طرف سے ان عہدیداروں اور اہلکاروں کی شکایات ڈویژنل کمشنر، ویجیلنس کمشنر، گورنر اور اینٹی کرپشن بیورو کو بھیج دی گئی ہیں۔
یہ ایک الگ سیکشن ہے۔ اسے اہم، بولڈ ہیڈ لائنز دیں۔ یہ سیکشن نہر کی ان تصویروں کے ساتھ لیا جائے گا جس پر ہم نے بحث کی ہے
شراب کوہل، 11 فٹ چوڑی آبپاشی نہر،جس کا پاٹ کاٹ ڈالا
فہد زارو کے زیر قبضہ جنگلاتی اراضی تک رسائی کے لئے نہر 6 فٹ روڈ میں تبدیل ریاستی انتظامیہ کے ذریعہ انکوائری شروع کی گئی۔
نتیجہ : صفر
اگر آپ5سوکنال اراضی کی ملکیت کے دعوے دار ہیں تو پھر آپ کے پاس وہاں تک پہنچنے کے لیے کوئی راستہ/سڑک ہونی چاہیے۔ نہیںتو رابطہ سڑک کے بغیر جنگل کی قیمتی اراضی پر قبضے کا پورا مقصد ہی ضائع ہو جاتا ہے۔
فہد نذیر زارو کے پاس جنگل کی زمین تک پہنچنے کے لیے کوئی سڑک نہیں تھی۔ پھر اس تک رسائی کیسے حاصل ہوئی؟ جنگل کی اس انمول زمین پر جھونپڑیاں، واش روم وغیرہ کیسے تعمیر کئےگئے؟
کیا اس نے حکومت سے اس کے لیے سڑک بنانے کی درخواست کی؟
نہیں.
کیا اس نے سڑک کی تعمیر کے لیے کسی محکمے سے اجازت لی؟
نہیں.
پھر جنگل تک رسائی کی سڑک کیسے آئی؟
یہ سڑک زارو نےمرکزی زیر انتظام انتظامیہ میں اپنی طاقت اور اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے حاصل کی
11 فٹ چوڑی پانی کی نہر جسے ’شراب کوہل‘ کہا جاتا ہے، داچھی گام سے مین روڈ اور زارو کی دعویٰ کردہ زمین کے درمیان بہتی تھی۔ اس سے پہلے اس جنگلاتی علاقے تک پہنچنے کے لیے پانی کی نہر سے گزرناپڑتا تھا۔شراب کوہل پر کرالہ سنگری روڑ کے نزدیک بنا کسی اجازات کے قبضہ کرلیا گیا اور نہر کے اندر 14 فٹ لمبی سیمنٹ پائپ ڈال دی گئ تاکہ فہد زارو کو مقبوضہ زمین تک رسائی مل جائے جو کہ اس طرح آبپاشی نہر پر قبضے کے بغیر تنکے کا بھی مول نہیں رکھتی ۔جبکہ 11فٹ وسیع نہر سے محض 6فٹ پانی کی نکاسی کا دعویٰ کیا گیا اور یوں جنگلات کی طرف راستہ بن گیاجس کے بعد نہر کے او پر دو گیٹ اور باڑ لگائی گئی۔ اس تعمیر کی وجہ سے نہربالکل خشک ہو گئی ہے۔
ذرائع کے مطابق جب نہر پرقبضہ کر کے سڑک بنائی گئی تو انکوائری شروع کر دی گئی۔ ذرائع نےیہ بھی انکشاف کیا ہے کہ ریاستی اداروںکے کچھ افسران اور فہد زرو کے درمیان کچھ سودے بازی ہوئی تھی۔واضح رہے کہ شراب کوہل کا پانی نہ صرف کرالہ سنگری اور ملحقہ بستیوں کو سیراب کرتا تھا بلکہ یہ کوہل سابق ریاست کے مہاراجہ ہری سنگھ کے محل ’ کرن محل ‘ کو پانی مہیا کرنے کا اہم ذریعہ تھی۔تاہم فہد زارو نے کچھ اہلکاروں کی ملی بھگت سے نہر کے پاٹ کو بھر دیا یہی نہیں بلکہ سر بند (ہارون) جو اس کوہل کا منبع ہے سے تھوڑی دوری پر پانی کا رخ ہی موڑ دیا ، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کوئی بھی محکمہ اس سنگین خلاف ورزی پر اب تک غور کیوں نہیں کررہا ۔کرالہ سنگری کے ایک رہائشی نے کشمیر سینٹرل کو بتایا: اس نہر کا پانی شراب خانہ کے لئے جاتا تھا۔ اسی لیے اسے شرب کوہل کہا جاتا ہے۔ کچھ بااثر لوگوں نے اپنے طور پر سڑکیں بنانا شروع کر دیں اور نہر بند ہو گئی۔ اس کا پانی نشاط سے بہہ رہا ہے لیکن اس طرف سے نہیں۔مقامی لوگوں کے ایک اور گروپ نے حکومت سے درخواست کی کہ پانی کی نہر کو جلد از جلد بحال کیا جائے کیونکہ یہ صاف پانی تھا، جو آبپاشی کے مقاصد کے لیے استعمال ہوتا تھا۔واضح رہے کہ اسی نہر کا پانی ماضی میں سراج باغ موجودہ ’ باغ گل لالہ اور باٹونیکل گارڈن کو بھی سیراب کرتا تھا لیکن اب دونوں کو مصنوعی ذرائع سے پانی سپلائی کیا جاتا ہے ۔
شراب کوہل کس کے دائرہ اختیار ،مختلف محکمے منکر
جب واٹر ورکس ڈویژن سری نگر کو ایس ایچ او تھانہ نشاط نے ایک خط لکھکر باضابطہ طور پر پوچھا کہ کیا شراب کوہل ان کے دائرہ اختیار میں آتی ہے تو ایگزیکٹیو انجینئر، واٹر ورکس ڈویژن سری نگر نے خط نمبر:- WWD/CC/6029-331 میں لکھا، ” زیر بحث علاقہ جہاں تجاوزات کی گئی ہے وہ اس ڈویژن کے دائرہ کار سے باہر ہے۔ یہ ڈویژن صرف داچھی گام سے نشاط واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ تک شراب کوہل کی دیکھ بھال کر رہی ہے۔ اس طرح، یہ معاملہ کسی دوسرے محکمے کے ساتھ اٹھایا جا سکتا ہے جس سے یہ تعلق رکھتا ہو۔”
جب یہی سوال آبپاشی اور فلڈ کنٹرول سب ڈویژن ہارون سے باضابطہ طور پر کیا گیا تو اسسٹنٹ ایگزیکٹو انجینئر نے خط نمبر:- I&FC/SDH/515-516 میں جواب دیا، شراب کوہل کا آپریشن اور دیکھ بھال اس کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔ اس کے علاوہ، یہ دفتر قریبی کھیتوں کو سیراب کرنے کے لیے سید کوہل سے نہ تو کوئیخارج ہونے والا پانی واپس لیتا ہے اور نہ ہی اس حوالے سے کسی واٹر چارجز (آبیانہ) کی وصولی کا ذمہ دار ہے۔ سید کوہل کا کوئی ریکارڈ اس دفتر یا ذیلدار نہروں میں دستیاب نہیں ہے۔
کیا فہد نذیر زارو اتنا بااثر ہے کہ اس نے زمینیں ہتھیائیں، درخت کاٹے، آبپاشی نہرپر تجاوزات کھڑی کرکے اسے سڑک بنا دیا اور محکمے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور کوئی سچ بولنے کو تیار نہیں۔ افسوس، اس بات کا ہے کہ چند پیسوں کے لیےانتظامی امور کے ذمہ دار محکموں کے طور پر ناکام ہو رہے ہیں!!!!

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here