کرکٹ کا پیاریا انتہا پسندی کا بخار پاکستان کا قومی ترانہ بجاناجشن کااصل استعارہ

300
26 اکتوبر کو جموں و کشمیر پولیس نے جاریہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بھارت کی کرکٹ ٹیم کے خلاف پاکستانی ٹیم کی جیت کے مابعد ” جشن “ کے سلسلے میں قانون کے تحت مقدمہ درج کیا ہے ۔پولیس نے کہا کہ “صورہ میں SKIMS (شیرکشمیر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز) کے ہوسٹل میں مقیم ڈاکٹروں نے کرکٹ میچ کے نتائج کا جشن منانے کے لیے نعرے لگائے اور پٹاخے پھوڑے”۔ اسی طرح کی ایک اور شکایت گورنمنٹ میڈیکل کالج (جی ایم سی) سری نگر سے بھی موصول ہوئی تھی۔ ملزمان کے خلاف تعزیرات ہند (IPC) کی دفعہ 105 (A) اور 505 اورانسداد غیر قانونی سرگرمیاں ایکٹ کی دفعہ 13 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
 اکثرکشمیری اس فیصلے پرناراض ہیں ،ان کا ماننا ہے کہ مقامی آبادی کے خلاف اس طرح کی تعزیری کارروائیاں مفید نہیں ہوں گی کیونکہ کرکٹ میں پاکستان کی بھارت کے خلاف جیت کا جشن منانا جرم نہیں اس لئے کسی کو سزا نہیںہونی چاہئے ، ہم طلبا ءکے خلاف سزا کے حق میں نہیں ہیں ،لیکن دیکھا جائے تو اس معاملے کے دور رس نتائج سامنے آئیں گے۔
جب بھی ملک کسی اشتعال انگیزی کا موثرجواب نہیں دیتی ہے تو لوگ ملک اور وقت کی حکومت کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتے ہیں۔ جب ملک کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جائے تو ایک ایسا بیانیہ تیار کیا جاتا ہے کہ حکومت بے اختیار ہے اس کا اپنی ہی عوام پر بس نہیں چلتا ۔اور یہ علیحدگی پسندی ہے جو دلوں پر راج کرتی ہے ۔
یہ حالات گزشتہ 30 برسوں سے بڑے پیمانے پر رہے ، جب انتظامیہ اورسرکاروںنے اس قسم کی غلطیوں کو نظر انداز کیا جس سے علیحدگی پسندی اورانتہا پسندانہ سیاست کا پرچارہوا ۔لیکن اس کے باوجود یہ لوگ ملک کی طرف سے حاصل ہونے والے تمام فوائد سے لطف اندوز ہوتے رہے۔
حکومت اور انتظامیہ کی طرف سے تمام غلطیوں کو نظر انداز کرنے کے فیصلے نے کشمیر ی عوام کے اجتماعی نفسیات پر گہرا اثر ڈالا ۔ حکومت کی اس پالیسی نے ایسے سماجی اثرات مرتب کئے جس میں اب لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ قانون کی خلاف ورزی یا ملک دشمنی کا اظہار، ان کا استحقاق ہے ،بغاوت کو بھی عوام اب استحقاق کے طور لیتے ہیں ۔وہ ملک اور ملک کے اداروں کو بدنام کرنا ، ملکی مفادات کے برخلاف جانا یہ سب وہ جائز سمجھنے لگے ۔یہاں تک کہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کو بھی استحقاق کے طور لیا جانے لگا ہے ،ہر شہری یہ بخوبی جانتا ہے کہ دنیا بھر میں حکومتیں شہریوں کی سلامتی کے لئے قوانین بناتی ہے اور اس ملک کا آئین اور حکومتیں ان قوانین کی عملدرآمد کراتی ہے ،یہاں ایک معمولی مثال پیش کرتے ہیں ، عالمی سطح پر ڈرائیونگ کے دوران سیٹ بلیٹ لگانا لازمی ہے ، لیکن کشمیر میں بنا سیٹ بیلٹ پہنے ڈرائیونگ کرنا معمول کی بات ہے کیونکہ اس کو بھی عوام شہری حقوق سلب کرنے سے جوڑتے ہیں جبکہ ایسا بالکل بھی نہیں ۔ ہم سب اس حقیقت سے واقف ہیںکہ آئے روز خطے میں سنگین حادثات رونما ہوتے ہیں اور بہت سے لوگ کو ڈرائیونگ کے دوران سیٹ بیلٹ نہ باندھنے کی وجہ سے شدید چوٹیں آتی ہیںیا پھر جان بھی گنوانی پڑتی ہے ، اس سب کے باوجودخلاف ورزی جاری ہے۔ اور اگر ایسے کسی شخص کو پولیس ٹوکتی ہے یا ایسے ڈرائیور کا چالان کا ٹا جاتا ہے تو وہ بھی بشری حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا جاتا یا پھراس قانونی کارروائی کو پولیس کی ” غنڈہ گردی “ سے تعبیر کیا جاتا ہے
جب حکومت اپنااختیار برقرار رکھنے میں تساہل پسندی سے کام لیتی ہے ،تو عوام خلاف ورزیاں کرنے کو حق کا معاملہ سمجھتے ہوئے ،ملک کے خلاف جاتے ہیں۔اس طرح کے لنگڑے بہانے سپورٹس مین شپ کے بارے میں پیش کئے جاتے ہیں دلیل یہ دی جاتی ہے کہ کھیل میں جیتنے والی ٹیم کی حوصلہ افزائی کرنا یا ان کے حق میں نعرے بازی کرنا کوئی جرم نہیں اور پاکستان کی اس جےت پر جو جشن منایا گیا وہ ملک سے غداری نہیں بلکہ پاکستانی ٹیم کی اس جیت پر خوشی منانا ہماراحق ہے اس لئے ہندوستان جیسی جمہوریت کو وسعت قلبی کا مظاہر ہ کرنا چاہئے ۔اور اس جشن کو کھیل سے لگاو کے اظہار کے طور پرلینا چاہئے ۔
جو لوگ اس طرح کی دلیل پیش کرتے ہیں کہ ان سے ہمارا ایک سوال ہے کیا ملک آپ کو پاکستان کا قومی ترانہ بجانے کی اجازت دے گا؟ کیا آپ جیوے جیوے پاکستان کے نعرے لگانے اورگانے کی اجازت مانگ رہے ہیں ؟کیا یہ ممکن ہے ؟ کہ ایک ملک اپنے ہی شہریوں کو دشمن ملک کے گن گانے اور ان کے قومی ترانے بجانے کی اجازت دے گا ۔یہ کیسی بکواس ہے ،یہ مطالبہ کتنا بچکانہ ہے ،ذرا سوچیں اس پر۔
کیا ہم بھول رہے ہیں کہ کشمیری ،جو آئے روز مر رہے ہیں وہ پاکستان کی ایماءپر چلائی جانے والی اس درپردہ جنگ کا نتیجہ ہے جو یہاں گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہے ،اگرآج ملک حرکت میں نہیں آتا ہے اور ایسے عناصر کو نکیل نہیں ڈالتا ہے تو یہ ملک کی کمزوری اور بزدلی تصور ہوگی ،نتیجتاً ایسی خلاف ورزیاں باربار دہرائی جائیں گی ۔اور حکومت اپنا اختیار اور اعتبار کھو دے گی ۔اور عوام یہ کہنا شروع کردیں گے کہ یہاں علیحدگی پسند بیانیہ غالب ہے اس طرح کی حرکتوں کامطلب یہ ہوگا کہ لوگ ملککو نیچا دکھا نا چاہتے ہیں اور اس طرح یہ معمول بن جائے گا۔۔
ناقص پالیسیاں، نقصان دہ نتائج
 ہٹ دھرمی کی اس پالیسی نے ملکیمفادات کو شدید نقصان پہنچایا۔ کچھ ناقص پالیسیوں اور ان کے نقصان دہ نتائج کا ذیل میں مفصل جائزہ لیا گیا ہے۔
ہیلنگ ٹچپالیسی
اکیسویں صدی کے آغاز میں ہیلنگ ٹچ نامی ایک نظریہ متعارف کرایا گیا۔بظاہر یہ پالیسی کافی دلکش اور لبھانے والی نظر آرہی تھی ، لوگوں سے اس کوکافی پذائرئی بھی ملی لیکن اس کی خامیاں اس وقت کھل کر سامنے آئیں جب ریاست کے مخالفین نے اس کا کھلم کھلا غلط استعمال کیا۔ انہوں نے تمام خطاو ¿ں کو حق کے طور پر لیا۔
آرپار تجارت 
مثال کے طور پر منقسم کشمیر کے آر پار تجارت یا جس سے عرف عام میں کراس ایل او سی ٹریڈ کہتے ہیں کو ہی لے لیںاور دیکھیں کہ کس طرح تجارت کے نام پر پاکستان نے منشیات اور اسلحہ کشمیر پہنچایا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کشمیر میں منشیات کی دہشت گردی پر قابو پانا مشکل ہو رہا ہے۔
سنگ زنوں کے لئے عام معافی 
دوسری مثال پتھراو ¿ کرنے والوں کے لیے عام معافی کا ہے۔انتظامیہ کی طرف سے تقریباً 4200 ایف آئی آرز کو الگ کر دیا گیاجس کی رو سے سنگ بازوں کو پولیس حراست سے رہا کر دیا گیا۔ ان میںشامل نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے یہ سوچ لیا کہ وہ ریاست کو ہر وقت بے وقوف بنا سکتے ہیں۔
حکام کی ناک کے نیچے بڑے پیمانے پر فتنہ انگیزی ہوئی اور انتطامیہ اسے خاموشی سے دیکھتی رہی کیونکہ ہیلنگ ٹچ کا نظریہ رائج تھا۔ ان برسوںکے دوران سب سے زیادہ تباہ کن اور پرتشدد مظاہرے دیکھے گئے۔
———————————————————————-
سکمز کے سنیئر عہدیدار طلبا کے دفاع میں
معاملے کی نسبت سے جب کے زین نے سکمز کے ایک سنئیرعہدیدار سے رابطہ کیا تو انہوں نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ڈین فیکلٹی کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے اور واقعے کی حقائق پر مبنی رپورٹ مزید کارروائی کے لیے حکومت کو بھیج دی جائے گی
مذکورہ عہدیدار نے KZINE کو بتایا، “ہم اس واقعے کا نوٹس لے رہے ہیںاور یہ معاملہ انتہائی سنجیدہ نوعیت کا ہے ۔ دوسرا، ہمیں کچھ ریزیڈنٹ ڈاکٹروں کی طرف سے مسلسل مطلع کیا جا رہا ہے کہ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی مبینہ ویڈیو SKIMS کی نہیں ہے۔ ویڈیو میں موجود ڈھانچہ SKIMS ہاسٹل کے ڈھانچے سے میل نہیں کھاتا۔ اس میں کتنی صداقت ہے اس کی تصدیق کمیٹی کرے گی۔ ہم حقائق پر مبنی رپورٹ کا انتظار کر رہے ہیں۔ یہ ابتدائی معلومات ہے جو میں آپ تک پہنچا سکتا ہوں۔”
 “یہ میرا ذاتی خیال ہے کہ ایک جمہوری اور مہذب دنیا میں، آپ کسی کی رائے کو دبا نہیں سکتے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ انگلش فٹ بال ٹیموں کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک ملک میں کیا ہوتا ہے؟ ایک ویڈیو کیا گردش کرتی ہے، یہ چھوٹی بچی ہے، اور اسکا بڑا مسئلہ بنا دیا گیا ہے۔ دیکھیں جارج فلائیڈ، نیلسن منڈیلا، مارٹن لوتھر کنگ کے ساتھ کیا ہوا۔ آپ اس مسئلے کو تنگ نظری سے دیکھ رہے ہیں آپ کو اسے عالمی نقطہ نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here