کشمیر میں پنچایت راج کی بیخ کنی کا عمل ہموار

347
جی ایم میر
سری نگر اور نئی دہلی کے درمیان خلیج اس بنیاد پر قائم ہے کہ جموں و کشمیر میں جمہوری اداروں کو کبھی پنپنے نہیں دیا گیااور نہ ہی بنیادی جمہوری ڈھانچے کو مضبوط کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش کی گئی۔ عام طور پر اس ضمن میں دو دلائل پیش کئے جاتے ہیں۔ایک وہ لوگ جو آرٹیکل 370 کی تنسیخ کے حق میں ہیں ،ان کا یہ استدلال ہے کہ مذکورہ دفعہ پنچایت راج ایکٹ کے مکمل نفاذ کی راہ میںرکاوٹ تھی کیونکہ اس آرٹیکل کی وجہ سے ملک کے باقی حصوں پر لاگو ہونے والی آئینی دفعات جموں و کشمیر پر لاگو نہیں ہوئیں اور یہ کہ آئین میں کی گئی تاریخی ترامیم،جن میں آئین کی 73ویں اور 74ویںترمیم شامل ہے ،جس نے ملک میں پنچایتی اداروں کو مضبوط اور بااختیار بنایا جموں و کشمیر پر لاگو نہیں تھی اس لئے جموں و کشمیر میں ان ترامیم کے ثمرات لوگوں تک نہیں پہنچ پائے ۔
 اس کے خلاف جوابی دلیل یہ ہے کہ خود جموں و کشمیر کا آئین اور سابق ریاست جموں و کشمیر پر لاگو ہونے والے آئین ہند کی ان دفعات کی خلاف ورزی کی گئی تھی جس کے نتیجے میں جموں و کشمیر کے لوگوں کو بے اختیار کیا گیا تھا اور اس وجہ سے جمہوری ڈھانچے کو نقصان پہنچا تھا۔ آرٹیکل کی تنسیخ کے مخالفین جو دلیل پیش کرتے ہیں وہ اس بات پر منحصر ہے کہ انتخابی جمہوریت میں ہیرا پھیری ۔دھاندلی کرکے عوام کو بے دست و پا کیا گیا اور اس طرح جموں وکشمیر میں جمہوریت کی بنیادوں کو کھوکھلا کرکے یہاں کے عوام کو ترقیاتی ثمرات سے حقیقی طور پر بہرہ ور نہیں ہونے دیا گیا۔لیکن اس پوری کہانی کے دلچسپ زاوئیے کو دونوں مکاتب فکر صرف ِنظر کرتے ہیں ۔اگر انتخابات میں ہیرا پھیری کی گئی ، یا پھرکبھی ہوئی تھی ،لیکن جموں وکشمیر میں نظام کی تباہی کا سبب تب سے شروع ہوا جب آئین کی یہ دفعہ اس ریاست پر نافذ تھی ۔لہٰذا یہ دلیل پیش کرنا کہ 370جموں وکشمیر میںجمہوریت کو فروغ دینے اور اسے پروان چڑھانے کی خاطر آئین ہند میں شامل کیا گیا تھاتو ،یہ محض سیاستدانوں کی چشم شوئی ہے نہ کہ حقیقت کیونکہ اس کی منسوخی یا پھر بحالی سیاسی اشرافیہ کے اردگرد ہی گھومتی ہے ،جو پہلے بھی اس سے فائدہ اٹھا رہے تھے اور اب بھی اسی تگ و دو میں ہیں کہ اس کی تنسیخ سے سیاسی فائدے کس طرح سے اٹھائے جائیں ۔
رہا سوال جموں و کشمیر میں پنچایت راج اداروں کی مضبوطی کا، سچ پوچھیں تو آرٹیکل 370 کی منسوخی سے کچھ بھی فائدہ نہیں ہوا۔ اس لیے نہیں کہ اس کی منسوخی کا نتیجہ نہیں نکلا، بلکہ بنیادی طور پر اس لیے کہ جموں و کشمیر میں نوکر شاہی کی ذہنی ساخت ایسی ہے کہ آرٹیکل 370 کے ساتھ یا اس کے بغیر وہ جموں و کشمیر میں جمہوری اداروں کو جڑیں پکڑنے کی اجازت نہ دینے کے لیے پرعزم ہیں۔ ہاں جو لوگ نظام میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں ان کے خلوص اور نیت پر شک نہیں کیا جاسکتا ۔ جمہوری اداروں کو اعلیٰ ترین سطح تک امدادی نظام فراہم کرنے میں کچھ سنجیدگی نظر آتی ہے لیکن بدقسمتی سے لال فیتہ شاہوں نے جیسے تہیہ کرلیا ہو کہ وہ جموں وکشمیر سے جمہوری ڈھانچے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے، خاص طور پر جب بات پنچایتی راج اداروں کی ہو۔ 1990 میں عسکریت پسندی کے آغاز کے بعد خاص طور پر وادی کشمیر میں یہ خرابی در آئی کہ جمہوریت میں قابل اعتماد چہروں کی عدم دلچسپی رہی ہے۔اس تناظر میں بابووں کو یہ لگتا ہے کہ جو کوئی بھی انتخاب لڑ چکا یا مستقبل میں لڑنے کا ارادہ رکھتا ہے وہ گویا ذاتی دلچسپی کے لئے یہ سب کررہا ہے نہ کہ حقیقت میں اس کا اعتماد جمہوریت پر بحال ہوا ہے ۔ نظام اور ملک ان لوگوں کے لیے اپنا وجود کھوکھلا کرتے ہیں جو غیر ریاستی عناصر،اور سرحد پار ان کے کفیلوں کے ساتھ جمہوریت کی طرف لوگوں کو قایل کررہے ہیں
۔ ہندوستان نے عالمی سطح پر عزت حاصل کی ہے اور وہ اپنی جمہوری اقدار اور جمہوری ڈھانچے کو مزید مضبوط کرنے کے عزم کی وجہ سے عالمی رہنما کے طور پر ابھر رہا ہے۔ اس ملک کو عظیم بنانے میں لال فیتہ شاہوں کا کردار بہت کم ہے ۔ لیکن بدقسمتی سے کشمیر میں بابوو ¿ں کی مذہبی ذہنیت خاص طور پر آج بھی جمہوری اداروں کو مضبوط کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اور ستم بالائے ستم یہ کہ یہ بابو مقامی ہیں۔کے زین نے حالات کا گہرائی سے تجزیہ کرنے کی خاطر پنچایت راج سے جڑے لوگوں سے بات کی اور سب نے ایک ہی بات کہی، پنچایت راج کی ناکامی کے لیے بیوروکریٹس کو مورد الزام ٹھہرایا جانا چاہیے۔
 سفینہ بیگ، چیئرپرسن ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ کونسل (DDC)
کے ساتھ کے زین کا تبادلہ خیال
تین درجے کا نظام خود حکمرانی کا تصور ہے اور زمینی سطح پر اس کے کچھ سنہری نقطے بھی موجود ہیںجن میں پنچ اور سرپنچ ،جو دیہی سطح پر معاشی اور سیاسی طور پر بااختیار ہوتے ہیں۔ لوگوں کو اپنے ترقیاتی کاموں کے لیے ایم ایل اے سے ایم ایل سی یا پھر ایم پی کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ آج سرپنچ کے پاس یہ تمام کام کرنے کا اختیار ہے۔ ترقی کے ساتھ ساتھ ان کاموں میں شمولیت اختیارکرنابھی خود لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔ ہم گاو ¿ں کی سطح سے عوامی شرکت حاصل کرتے ہیں۔ فنڈز کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں ہے؛ اصل میں بجٹ کافی سے زیادہ ہے۔ پنچایت راج کا بنیادی مقصد دیہی علاقوں میں روزگار پیدا کرنا ہے اور نوجوان اس عمل میں اور دیہی ترقی کے محکمے اور دیگر محکموں کے ڈائریکٹوریٹ کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں۔ اور ترقی امن کی طرف لے جاتی ہے۔ غلط حکمرانی بیگانگی کی طرف لے جاتی ہے۔ خواتین کو ترقی کے عمل میں حصہ لینے کا موقع ملا۔سیاسی خطوط پر، کوئی بھی حکومت نہیں چاہتی تھی کہ یہ نظام مضبوط ہو کیونکہ اس سے ایم ایل اے اپنے اختیارات کھو دیتے تھے ، اس لیے انہوں نے اس پروگرام پر عمل درآمد روک دیا۔ نظام کو مضبوط کرنا وزیر اعظم کی پالیسی تھی اور ایل جی حکومت نے اس نظام کو نافذ کرنے کی پوری کوشش کی اور منصفانہ طریقے سے الیکشن کرائے۔ بے رحم تاریخ اور تنازعات کے باوجود، لوگوں نے الیکشن میں حصہ لیا اور آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد یہ جموں و کشمیر کا پہلا کامیاب الیکشن تھا۔سفینہ بیگ نے مزیدکہا کہ اس عمل کو سبوتاژکیا جا رہا ہے۔ان کے مطابق سہ طبقاتی نظام کاجلد ہی ایک سال مکمل ہونے جا رہا ہے لیکن اختیارات تفویض ہونے کے مسائل ا بھی بھی موجودہیں۔ جب نئی چیزیں قائم ہوتی ہیں تو عمل درآمد میں وقت لگتا ہے لیکن، جموں و کشمیر میں کچھ افسران ایسے ہیں جو نہیں چاہتے کہ یہ نظام چلے کیونکہ اس میں ان کے اپنے مفادات ہیں۔ جب کچھ ڈی ڈی سی ممبران افسران کے بارے میں شکایت کرتے ہیں، تو وہ اس کے پیچھے کی سیاست کو نہیں سمجھتے۔ بھارت مخالف جذبات رکھنے والے کچھ بیوروکریٹس جانتے ہیں کہ یہ مرکزی حکومت کی طرف سے کشمیری عوام تک بہترین رسائی ہے۔ لہٰذا، وہ صرف یہ کام نہیں کرنا چاہتے ہیں. ان کی بڑی دلچسپی یہ ہے کہ یہ وزیراعظم کا عمل ہے اس لیے اس کو سبوتاژکرنا ہے۔
اس کی ناکامی کی دوسری وجہ یہ ہے کہ جموں و کشمیر مرکز کے زیر انتظام علاقہ ہے اور خطےکے افسران خود کو مرکز سے بالاتر سمجھتے ہیں، وہ اپنے اختیارات سے دستبردار نہیں ہونا چاہتے۔ یہ بنیادی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے نظام لرز رہا ہے۔ بدقسمتی سے ڈی ڈی سی ممبران بھی خود کو سپر ایم ایل اے سمجھ رہے ہیں، اسی لیے میں ایل جی سے ٹریننگ سیشن شروع کرنے کی درخواست کر رہی ہوں تاکہ افسران کو ڈی ڈی سی کے اختیارات کا علم ہو جائے اور ڈی ڈی سی کو بھی ان کے دائرہ اختیار کے بارے میں معلوم ہو سکے۔ بہت ساری الجھنیں ہیں اور تربیتی سیشن کا ہونا بہت ضروری ہے تاکہ نظام کو ہموار کیا جائے۔ یہ بہترین نظام ہو گا اگر دونوں فریق تعاون اور ہم آہنگی کے ساتھ کام کریں گے۔ نظام احتساب ہے، انتہائی شفاف ہے اور کرپشن پر آسانی سے قابو پایا جا سکتا ہے۔ اسے اسی طرح جاری رہنا چاہیے جس طرح وزیراعظم نے عہد کیا ہے۔ انتظامیہ کو سنجیدہ پیغام جانا چاہیے۔ ہمارے پاس کشمیر میں ایسے ڈی سی ہیں جو ڈی ڈی سی کے چیئرپرسن یا ممبران کی فون کال بھی موصول نہیں کرتے ہیں۔اس ادارے کو وہ عزت نہیں مل رہی جس کے وہ حقدار ہیں لیکن اس کے باوجود بھی افسران سے بہت ساری توقعات وابستہ ہیں۔جہاں تک سرپنچوں، پنچوں، ڈی ڈی سی ممبران کی رہائش پر غور کیا جاتا ہے توکشمیر میں سیکورٹی کے خدشات بہت زیادہ ہیں اور پنچایت ممبران عام طور پر حملوں کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ ان سب کو سیکورٹی فراہم کرنا آسان نہیں ہے۔ چیزوں کو ترتیب دینے میں شائد کچھ وقت لگے گا۔
ریاض احمد ڈی ڈی سی ممبر، دیوسر بی، ضلع کولگام نے KZINE کے ساتھ تبادلہ خیال کرتے ہوئے کہا،
جب ہم نے الیکشن میں حصہ لیا تو حکومت نے بہت سے وعدے کئے۔ الیکشن کے دنوں میں S.H.O محافظوں کے ساتھ مجھے لینے آتے لیکن الیکشن کے بعد انہوں نے ہمیں قیدیوں کی طرح رکھا۔ اب آپ ہم میں اور سینٹرل جیل کے قیدیوں میں کوئی فرق نہیں پائیں گے درحقیقت ان قیدیوںکے پاس ہم سے زیادہ سہولیات ہیں۔ دوسرا، ہم اس سہ طبقاتی نظام کو زمینی سطح پر کامیاب بنانا چاہتے تھے لیکن ہم لوگوں کے وعدے پورے نہیں کر سکے ہمیں اب عوام کی طرف سے شکایات موصول نہیں ہوتی ہیں کیونکہ ہماری طرف سے انہیں کوئی راحت نہیں مل رہی نہ ان کا کوئی کام ہورہا ہے۔ اگر ہم بلاک ڈیولپمنٹ آفیسرز (BDO) یا اسسٹنٹ کمشنر ڈیولپمنٹ (ACD) کو کہتے ہیں کہ یہ عوامی نوعیت اور عوام کی مانگ ہے کہ فلاں کام ہونا چاہئے تووہ ہم سے متفق نہیں ہوتے ہیںاس کی وجہ یہ ہے کہ ان افسران کی اپنی الگ الگ ترجیحات ہوتی ہیں ۔ کوئی افسر ہم سے تعاون کے لئے تیار نہیں ہم ان کا تعاون کسی غلط یا نجی ضروریات والے فلاحی کاموں کے لئے نہیں مانگتے بلکہ یہ عوامی ڈیمانڈ ہوتی ہے جو ہم ان افسران تک پہنچاتے ہیں
یہاں پر ایک واضح فرق یہ ہے کہ ان افسران کو کل پھر لوگوں کے سامنے ووٹ کے لئے نہیں جانا ہے جبکہ ہم عوام کے سامنے جوابدہ ہیں ۔
ہم منتخب شد ہ ڈی ڈی سی ممبر ہیں لیکن ہمیں ڈسٹرکٹ پلاننگ کمیٹی میں شرکت کی اجازت نہیں ہے۔ ہمارے پاس کوئی ایسا پلیٹ فارم نہیں ہے جہاں ہم اپنی بات رکھ سکیں، جہاں ہم مسائل پر بات کر سکیں۔ افسران ڈی ڈی سی کے ارکان کو گورنر سے ملنے نہیں دیتے ہیں ہماری داد رسی کہیںپر نہیں ہوتی کبھی سیکورٹی کا بہانہ تو کبھی وقت کی عدم دستیابی ایک سال مکمل ہوگیا لیکن ہم ابھی تک اپنی واضح عوامی نمائندگی ثابت کرنے میں ناکام ہورہے ہیں ۔ ہمیں صرف جلسے اور جلوسوں کی زینت بنایا جارہا ہے ،ہم سٹیج کے اس کونے پرہیںجہاں عوام اور سرکار ملازمین کو ہونا چاہے تھا۔
حال ہی میں نئے تعینات ہونے والے نوجوان KAS افسران کو دیہی ترقی محکمے BDO کے طور پر تعینات کیا گیا تھا اور وہ پبلک ڈیلنگ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ۔ انہیں پہلے محکمہ ریونیو میں بھیجا جائے جہاں وہ چیزیں سیکھ سکیں۔ریاض احمدکامزیدکہنا تھاکہ 2020 کے الیکشن کے بعد کوئی ٹریننگ نہیں ہوئی۔ حکومت کا پیسہ ہتھیانے کے لیے وہ ممبران کو سیرو سپاٹے کے لیے لے جاتے ہیں۔ ٹریننگ اور ٹور میں فرق ہوتا ہے، ٹور کے دوران ہم مختلف ریاستوں کی پنچایتوں کے بارے میں سیکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر، پنجاب اور کشمیر کی پنچایت ایک جیسی نہیں ہے۔ پنجاب کے ایس ایچ او کو سرپنچ کی اجازت کے بغیر کسی گاو ¿ں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے لیکن یہاںالٹی گنگا بہہ رہی ہے سرپنچ اور پنچ کوہی ایس ایچ او سیکورٹی کی آڑ میںاپنے ہی حلقہ انتخاب میں داخل نہیں دیتا ۔
۔ ہمیں تربیت کی ضرورت ہے جہاں تمام ممبران اپنے اختیارات کے بارے میں جان سکیں۔ ڈی ڈی سی ممبر کی حیثیت سے، میں نے کبھی کوئی تربیت حاصل نہیں کی ۔اس سال مارچ میں ایک تربیتی کورس جو جموں میں 2 دن رہا لیکن یہ دو دن جان پہچان میںہی گزر گئے ۔ان کا کہنا تھا کہ صرف کولگام ضلع میں تقریباً 250 کروڑ کا منصوبہ لیپس ہو جائے گا کیونکہ محکمے ہمارے ساتھ تعاون نہیں کر رہے ہیں۔ جب ہم منصوبہ تیار ہیں تو سب سے پہلے محکموں سے ان کا تخمینہ پوچھتے ہیں لیکن وہ یہ کہہ کر تخمینہ دینے سے انکار کرتے ہیں کہ ہمیں پلان بھیجیں پھر تخمینہ لگائیں گے۔ مثال کے طور پر، میں نے ایک ٹرانسفارمر کے لیے 2.5 لاکھ کا پلان بنایا اور پھر انہوں نے اس کا تخمینہ 7 لاکھ لگایا۔ ہمارے پاس سی ڈی کا پیٹرن ہونا چاہیے اس لیے پہلے تخمینہ جمع کرایا جائے گا، پھر فزیبلٹی چیک کے بعد کام کیا جائے گا۔ حکومت نے نظام میں موجود” لنگڑے گھوڑوں “کو ہٹانے کا ایک بڑا قدم اٹھایا ہے۔ اس وقت ہمارے پاس تمام محکموں میں ”50 فیصد ڈیڈ ووڈملازمین “ہیں۔ یہاں تک کہ وہ مافیا کے لوگوں کو ٹینڈر دے کر پنچایتی ایکٹ کی خلاف ورزی کر رہے ہیں نہ کہ ان لوگوں کو جن کی ہم سفارش کرتے ہیں۔ بابو ہمیں وہ عزت نہیں دے رہے جس کے ہم حقدار ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here