غلام رسول، پیسہ وصول

571
  تحصیلدار بجبہاڑہ ، کاایک ہی اصول
سنگم !آپ کومناسب قیمت پر فروخت کریں گے
سابق تحصیلدار پہلگام غلام رسول بٹ کی بدعنوانی، دھوکہ دہی اور سرکاری اراضی کی غیر قانونی تبدیلی کی واضح مثالیں سامنے آئی ہیں۔ ریاستی اراضی کے ان غیر مجاز تغیرات اور دیگر طرح کے کئی فراڈکرکے خزانہ عامرہ کو کروڑوں روپے کاچونا لگایا۔ دھوکہ دہی پر مبنی یہ کارستانی سیاستدانوں/افسروں کے گٹھ جوڑ کی ایک چھوٹی مثال ہے جس نے خطے میں بدعنوانی کو فروغ دیا ہے۔
تحصیلدار پہلگام کے طور، غلام رسول بٹ نے مقامی سیاست دانوں اور تاجروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے جان بوجھ کر اپنے عہدے کا غلط استعمال کرکے محکمہ مال کے ریکارڈ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی، واضح رہے کہ بٹ کو 2019 میں اوقاف اسلامیہ ترال کے اکاونٹ میں سے 8.5 لاکھ روپے نکالنے پر معطل کر دیا گیا تھا، اس وقت وہ ترال میں  بحیثیت تحصیلدار تعینات تھے۔ بٹ کو تقریباً تمام جگہوں پر  جہاں وہ بحیثیت نائب تحصیلدار یا تحصیلدار خدمات انجام دیتے رہے ہیں ،ان پر بڑے پیمانے پر اپنے دفتر کے غلط استعمال کرنے ،بدعنوانی ، غیر قانونی انتقال ِ اراضی اور خرد برد جیسے الزامات کا سامنا ہے۔اتنا ہی نہیں بلکہ بٹ کو اوقاف کمیٹی کھرم کے چیئرمین کی حیثیت سے اپنے دور میں اوقاف اسلامیہ کھرم حضرت بل میں 2.44 کروڑ روپے غبن کرنے کا الزام بھی ہے۔
کشمیر سنٹرل کو قابل اعتماد ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ بطور تحصیلدار پہلگام، بٹ نے عمداً و قصداً اننت ناگ کے ایک بااثر تاجر کے حق میں  پٹیپر دی گئی جائیداد کاغیر قانونی طور پر انتقال کرنے کا الزام بھی ہے  ۔ پہلگام میں ہوٹل تاج ریاستی زمین پر پلاٹ نمبر 14، 15، 16 اور 17 پر تعمیر کیا گیا ہے ،مذکورہ جائیداد قبل ازیں نئی بستی، کھنہ بل، اننت ناگ کے عبدالغنی خان کو پٹے پر دی گئی تھی۔اراضی اور ہوٹل کی لیز کی میعاد 1997 میں ختم ہوئی، 2019 میں بٹ نے انتقال نمبر217/2019کے ذریعے دھوکہ دہی سے اس سرکاری اراضی کو عبدا لغنی خان کے قانونی وارثوں یعنی روف رحمان ،محمد شفیع اور ہلال احمد کے نام تبدیل کر دیا۔ یہ انتقال ِ اراضی ،بٹ کی طرف سے سرکار ی عہدے کے غلط استعمال کی ایک عمدہ مثال ہے۔ بجائے اس کے کہ بحیثیت تحصیلدار غلام رسول بٹ لیز معاہدے کی تجدید کرنے کا کہتا ،جوکہ 1997میں اختتام کو پہنچا تھا ،بٹ نے جعل سازی کرکے انتقال ِ جائیداد کے کاغذات کی تصدیق کردی۔ غلام رسول بٹ اپنے عہدے اور طاقت کے غلط استعمال کے درجنوں معاملات میں خاطی ہیں ۔ سابق ایم ایل اے پہلگام الطاف کلو کو فائدہ پہنچانے کے لیے، بٹ نے انتقال نمبر 2396 مورخہ 7/9/2018 کو گرینڈ عیش مقام اورانتقال نمبر 886 مورخہ 7/9/2018 موضع جامو نیابت عیش مقام
 میں ریونیو دستاویزات کی تصدیق کی۔ جائیداد کے یہ انتقال اسد کلو ولد مامہ کلو کی ہیں ۔جائیداد کا انتقال ان کے ورثا جن میں مامہ کلو کی بٹیاں ،نذیرہ ، زبیدہ اور حنیفہ بھی حصہ دار ہیں ان کو اعتماد میں لئے بغیر یک طرفہ طور اسد کلو کے نام منتقل کی گئیں۔مذکورہ بہنوں کا حصہ الطاف کلو نے اس وقت کے تحصیلدار غلام رسول بٹ کے ساتھ مکرو فریب پر مبنی گٹھ جوڑ کرکے ہتھیا لیاہے۔
نذیرہ نے مذکورہ تبدیلی کو ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر (اے ڈی سی) اننت ناگ کی عدالت میں چیلنج کیا۔ 12/10/2021 کو اے ڈی سی اننت ناگ نے فریقین کوجوں کی توں حالت برقرار رکھنے کی ہدایت کی۔
معتبر ذرائع کے مطابق، بٹ نے پہلگام میں لیز پر دیئے گئے متعدد پلاٹوں کو غیر قانونی قابضین کے نام انتقال کرکے انہیں مالکان حقوق عطا کئے ہیں ۔ ایسی کئی جائیدادوں کی لیز کئی دہائیاں قبل ختم ہو چکی تھی۔ خیال رہے کہ پہلگام میں لیز پر دیئے گئے پلاٹ تجارتی نکتہ نظر سے قیمتی اراضی میں شمار ہوتے ہیں ۔بٹ ،جس کو قانون کی عمل آوری کیلئے پہلگام میں تعینات کیا گیا تھا ،نے ریاست کو ہونے والے محصول کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے  اسٹینڈنگ آرڈر 23A کی خلاف ورزی کرکے ورثا کے درمیان لیز پر دی گئی زمین کے عنوان کو تبدیل کر دیا۔
تحصیلدار پہلگام کے طور پر، بٹ نے مبینہ طور پر اپنے چپراسی عبدالرحمٰن کاترو ساکنہ سلر پہلگام کے ساتھ گٹھ جوڑ میں 30 کنال سرکاری زمین پر قبضہ کیا۔ کاترو نے بعد میں مقامی لوگوں کو 300 کنال سرکاری اراضی پر قبضہ کرنے کے لئے اکسایا۔محکمہ مال کے ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ اگرچہ بہت سے افسران بدعنوان ہیں لیکن وہ اتنے بڑے پیمانے پر غیر قانونی انتقالات پر دستخط کرنے سے کتراتے ہیں۔
 بٹ نے ان غیر قانونی اور غیر مجاز تبدیلیوں کی اجازت کیوں دی؟
چونکہ پہلگام ایک اعلیٰ درجے کا سیاحتی مقام ہے، اس لیے سول انتظامیہ اور پولیس، بیوروکریسی کے کئی اعلیٰ افسران وہاں جائیدادیں رکھنے کے خواہاں ہیں۔ بٹ کو مبینہ طور کے پی ایس کے دو سینئر افسران کا آشیرباد حاصل رہاہے (ان میں سے ایک اب ریٹائر ہو چکا ہے)۔ یہ افسران بالترتیب لدرو اور لنگن بل میں ریاستی/جنگلاتی اراضی پر قابض تھے۔ بٹ نے ان کی زیر قبضہ اراضی کے عنوان کو ملکیتی زمین میں تبدیل کرنے میں مدد کی۔
یہ بھی الزام لگایا جاتا ہے کہ اس سینئر پولیس افسر نے، جو اب ریٹائر ہو چکا ہے، نے بٹ کی معطلی کا حکم 2020 کے اوائل میں منسوخ کر دیا تھا۔ یہ ان دونوں کے لیے ایک سود مند سودا تھا۔ بٹ نے لنگن بل میں اس زمین کو ریگولرائز کیا تھا جس پر پولیس افسر کا قبضہ تھا۔
قابل ذکر ہے کہ بٹ کے پیش رووں نے واضح طور پر زمین کے اس حصے کی تبدیلی کی تصدیق کرنے سے انکار کر دیا تھا، کیونکہ یہ جنگلاتی زمین تھی۔ جہاں بھی وہ تعینات تھے،جس کسی بھی حیثیت میں ،بٹ نے اپنے لیے ایک اتھارٹی کی طرح کام کیا کیونکہ بٹ کی پیٹھ پر دو اعلیٰ پولیس افسروں کا  ہاتھ تھا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here