پاکستان کا مقصد کشمیر کو دنیا سے بند رکھنا ہے۔
دنیا جتنا کشمیر کو دیکھے گی، اتنا ہی پاکستان کے جھوٹ بے نقاب ہوں گے۔
میر قیوم
رواں ماہ کی ابتدا میں پاکستان نے خوداپنے آپ ہی حقیقی مقاصد کا اظہار کردیا ، چونکہ یہ بات عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہے کہ پاکستانی فوج ، جس کے پاس ملک کے خارجہ تعلقات اور خارجہ پالیسی سے متعلق اہم ترین قلمدان بھی ہے، کے جرنیل اتنے کور چشم ہوں گے کہ انہیں واضح سیلف گول حاصل کرسکیں ۔
دراصل ایسی خوش گمانی ، اپنے متعلق غلط فہمی سے پیدا ہوتے ہیں اور پاکستانی نے یہاں پر کچھ زیادہ اس کا مظاہرہ کیا ، ہوا دراصل یوں کہ حکومت پاکستان نے سری نگر ،شارجہ اڑان کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی ۔واضح رہے کہ 11برس بعدوادی کشمیر اور متحدہ عرب امارات کے درمیان براہ راست فضائی رابطہ بحال ہوا ہے۔یہ بات آہستہ آہستہ عیاں ہورہی ہے کہ اور کشمیری جاننے لگے ہیں کہ پاکستان کشمیر کا دوست نہیں ، چونکہ گزشتہ تیس برس سے پاکستان بھارت کو تکلیف پہنچانے کے لئے کشمیر میں،کشمیریوں کا ہی لہو بہا رہا ہے ، کشمیر میں جو اس پاکستانی کھیل کے ادکار ہیںوہ آج سبق حاصل کررہے ہیں ۔
شاید یہ کسی کے وہم گمان میںبھی نہیںتھا کہ فضائی حدود کے استعمال کے انکارپر پاکستان خود ننگا ہورہا ہے ،لیکن پاکستان کے تذیرواتی اثاثوں کو کافی محتاط طریقے سے پالاگیا ہے ، یہ پسران خشم اور دختران خشم اپنے سرپرستوں سے بھی دو قدم آگے نکلنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ دراصل پاکستان سے ملنے والا رسد جادو کا کام کرتی ہے جس کے بعد وہ انہیں شاہ سے زیادہ وفادار بناتی ہے ۔
پاکستان کے ان پرخشم فرزندوں میںسے ایک گوہر گیلانی ہیں ، جن کو پاکستان کی جانب سے فضائی حدود کے انکار پرکشمیریوں کا غصہ ہضم نہیں ہوا اور انہوں نے ٹو ئٹر پر الٹیاں شروع کردیں ۔ گوہر نے ٹویٹ کیا: سری نگر-شارجہ پروازوں کے لئے فضائی حدود کی اجازت یا انکار کے بارے میں غصے سے ٹویٹ کرنے والوں کو بھی یہی جذبات ٹرانس کشمیر بس سروس اور تجارتی راستوں جیسے سری نگر-مظفر آباد، پونچھ-راولاکوٹ وغیرہ کے حوالے سے شیئر کرنا ہوں گے نہ کہ پاکستان کی صرف ایک بات کو بنیاد بنا کر اس پر طعن و تشنیع کرنے بیٹھ جائیں اور اظہار تاسف کریں
گوہر اشتعال انگیزی کو بڑھاوا دینے میں بڑا ماہرہے ، لیکن بعض اوقات ،احتیاط سے پالے گئے ان دانشوروں اور سچائی کے علمبرادر وں کے نقاب ہلکے سے جھونکے سے بھی گر جاتے ہیں ، گوہر نے اپنے ٹویٹ کے ذریعہ غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے جان بوجھ کر گیند پاکستان کی جھولی میںڈال دی۔ اپنے ٹویٹ پاکستان کے تنخواہ دار، گوہر کو اس بات کی پرواہ نہیں کہ نام نہاد تجارتی راستوں کو پاکستان نے منشیاتی دہشت گردی کے آلے کے طور پر استعمال کیا۔ اسے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ یہ راستے کشمیر میں بندوقیں پہنچانے، پاکستان کے زیر اہتمام دہشت گردی کے ماحولیاتی نظام کو مضبوط کرنے اور زیادہ سے زیادہ کشمیریوں کو دہشت زدہ کرنے کے لیے استعمال کیے گئے تھے۔
ہر کشمیری جانتا ہے کہ بس سروس خطے میں پاکستان کے دہشت گردانہ گٹھ جوڑ کی وجہ سے ناکام ہوئی، جس کی حمایت سید گیلانی اور دیگراں نے کی۔ دہشت گردی کے گٹھ جوڑ نے بین کشمیر ی بس سروس اور تجارتی راستوں کو اسمگلنگ کے اچھے نیٹ ورک میں تبدیل کر دیا۔ اسلحہ، منشیات اور حوالہ جیسے گھناونے فعل پروان چڑھے۔ اور جب اس طرح کے کاموںپر قدغن لگی اور تجارت یا راستے کھولنے کی کسی بھی کوشش کو ختم کردیاتو اس گٹھ جوڑ کے ساتھ وابستہ افراد چراغ پا ہوئے ۔
گوہر کیلئے کچھ اعداد و شمار جو وہ آسانی ہضم کرسکتے ہیں
بڑے نقصانات
اس ’تجارت‘ میں شامل ایک ٹرک سے 10 کروڑ مالیت کی کوکین کی دریافت کے بعد ایل او سی کے پار تجارت کو مختصراً معطل کر دیا گیا۔
جنوری 2014: پولیس نے سرحد پار تجارت میں ملوث ایک ٹرک سے ایسیٹیل مورفین کے 114 پیکٹ قبضے میں لیے، جو کہ ہیروئن کی ایک قسم تھی۔ تلاش میں شامل ایک افسر، کامیشور پوری نے کہا، “ہمیں بادام کی 148 بوریاں ملی ہیں، اور ان میں سے 114 میں ایک کلو گرام کی ایسٹیل مارفین، ایک قسم کی ہیروئن تھی، جوبیچ میں پھنسائی گئی تھی۔ ادویات مکمل طور پر خالص تھیں، اس لیے ہندوستان میں اپنے سپلائرز تک پہنچنے کے بعد، 114 پیک آسانی سے 500 کلوگرام تک بڑھائے جا سکتے تھے۔ پولیس تفتیش میں مزید انکشاف ہوا کہ یہ کھیپ مظفر آباد کے چکوٹی ٹریڈ فیسیلیٹیشن سینٹر (سی ایف ٹی سی) میں مسرور میر کے نام پر بک کی گئی تھی۔ مسرور 1990 کی دہائی میں ہتھیاروں کی تربیت کے لیے پاکستان کے مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوا تھا اور اس کے بعد سے وہ وہیں مقیم ہے۔ ‘اجازت یافتہ مواد’ کی پیکیجنگ میں دوائیوں کی چھپائی کم شک اور کھوج پیدا کرتی ہے۔
بعد میں 2014 میں: ایل او سی کے پار تجارت میں ملوث ایک اورٹرک سے 3 کلو ہیروئن برآمد ہوئی۔
فروری 2015: اوڑی میں ایک پاکستانی ٹرک سے 12 کلو گرام ممنوعہ مادہ برآمد ہوا۔ مادہ کو سنتگروںکے ڈبوں میں احتیاط سے چھپایا گیا تھا۔
مارچ 2015: سری نگر میں 2 کلو ہیروئن برآمد کی گئی جن کا تعلق کشمیر کے ا ±وڑی کے گاو ¿ں جابڑا سے ہے۔
فروری 2017: رجسٹریشن نمبر JK03B-1586 کے ساتھ کراس ایل او سی تجارت میں سامان کی نقل و حمل میں ملوث ایک ٹرک کو دوسری طرف سے واپس آتے ہوئے اوڑی کے قریب پکڑا گیا۔ ایک چینی پستول، دو میگزین اور پستول کے 14 راو ¿نڈز، 4 اے کے میگزین، 120 اے کے راو ¿نڈز اور دو چینی دستی بم ٹرک بڑی مہارت سے چھپائے گئے تھے ضبط کیے گئے۔
جولائی 2017: اوڑی میں سرحد پار تجارت میں ملوث ایک ٹرک سے INR 300 کروڑ مالیت کی 67 کلو گرام کوکین برآمد ہوئی۔ گاڑی تجارتی منصوبے کا حصہ تھی، جس کا نمبر AJKXA-267 تھا۔
گوہر کی رائے کے مطابق، اگر کشمیری چاہتے ہیں کہ شارجہ کی پرواز کے لیے پاکستان کی فضائی حدود کی اجازت دی جائے،تو دہشت گردی کے اسپانسر پاکستان ،کو دوبارہ کشمیر میں منشیات، اسلحہ اور گولہ بارود کی سپلائی کے لیے آزادانہ طور پر چلنے کی اجازت دی جائے۔
اپریل 2019 میں، بھارت نے تجارت سے منسلک افراد کی طرف سے اس سہولت کے غلط استعمال کا الزام لگاتے ہوئے کراس ایل او سی تجارت کو معطل کر دیا تھا۔
اپریل 2019 میں، بھارت نے دہشت گرد گروپوں سے منسلک افراد کی طرف سے سہولت کے غلط استعمال کا الزام لگاتے ہوئے کراس ایل او سی تجارت کو معطل کر دیا۔ تب سے، پاکستان نے کشمیر میں منشیات اور گولہ بارود کی فراہمی کے لیے ڈرونز اور دہشت گرد دراندازوں پر توجہ مرکوز کی ہے۔
ڈرون اور دہشت گرد درانداز سرحد پار تجارت کے دلکش چہرے کے ساتھ ساتھ کام نہیں کرتے۔ ڈرون پاکستان کے لیے کہیں زیادہ مہنگا سودا ہے۔ منشیات اور گولہ بارود کی صرف ایک محدود مقدار ہے جسے ڈرون یا دہشت گرد درانداز لے جا سکتے ہیں۔ اور دونوں پکڑے جانے پر کہیں زیادہ بین الاقوامی مذمت کی دعوت دیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ کشمیر میں پاکستان کے پیادہ سپاہی گوہرگیلانی اس بات کو سمجھتے ہیں۔اسی لئے وہ کراس ایل اوسی ٹریڈ اور بس سروس کی بحالی کا مطالبہ کررہا ہے
گوہر کی تصویر کے ساتھ بلرب
گوہر اشتعال انگیزی کو بڑھاوا دینے میں بڑا ماہرہے ، لیکن بعض اوقات ،احتیاط سے پالے گئے ان دانشوروں اور سچائی کے علمبرادر وں کے نقاب ہلکے سے جھونکے سے بھی گر جاتے ہیں ، گوہر نے اپنے ٹویٹ کے ذریعہ غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے جان بوجھ کر گیند پاکستان کی جھولی میںڈال دی۔
ضبط شدہ منشیات یا LOC تجارت کی تصویر کے ساتھ
پولیس کو بادام کی 148 بوریاں ملی ہیں، اور ان میں سے 114 بوریوں میں ایک کلو ایسٹیل مارفین، ایک قسم کی مورفین، ایک قسم کی ہیروئن ، جو بیچوں بیچ چھپائی گئی تھی۔ ادویات مکمل طور پر خالص تھیں، اس لیے ہندوستان میں اپنے سپلائرز تک پہنچنے کے بعد، 114 پیک آسانی سے 500 کلوگرام تک بڑھائے جا سکتے تھے۔