حیدر پورہ انکاؤنٹر: سچائی سامنے آگئی

363
 
مدثر گل عسکریت پسندوں کا ساتھی تھا
 عامر ماگرےنے بابر قادری کے قاتل بلال کوفرار ہونے میں مددکی
عسکریت پسندی سے متعلق سرگرمیوں میں ڈاکٹر مدثر گل اور عامر لطیف ماگرے کے ملوث ہونے کے مضبوط انسانی، ڈیجیٹل اورطبعی شواہد موجود ہیں۔ ڈاکٹر مدثر، پیشہ سے دانتوں کا ڈاکٹر تھا اور ماگرے غالباً 15 نومبر کو حیدر پورہ انکاؤنٹر میں کراس فائرنگ میں مارے گئے ۔ انکاؤنٹر کی بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی، خاص طور پر اس لیے کہ ابتدائی طور پر ڈاکٹر مدثر اور عامر سمیت تین مقامی افراد کی لاشیں ان کے اہل خانہ کے حوالے نہیں کی گئیں۔
بعد ازاں اہل خانہ کے دباؤ کا سامنا کرتے ہوئے ڈاکٹر مدثر اور ایک تاجر الطاف بٹ کی لاشیں نکال کر آخری رسومات کے لیے اہل خانہ کے حوالے کر دی گئیں۔ پولیس نے واضح طور پر مدثر اور عامر کے دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا اشارہ دیا تھا۔ ان کے اہل خانہ نے ان بیانات کی سختی سے تردید کی اور الزامات سے انکار کیا۔ انکاؤنٹر کے بعد کچھ دنوں تک تعطل کا شکار رہا۔ جس کے بعد لاشیں نکال کر لواحقین کے حوالے کر دی گئیں۔لیکن پولیس عامر کے عسکریت پسندی سے متعلق سرگرمیوں میں براہ راست ملوث ہونے کے بارے میں پراعتماد رہی ہے۔ پولیس کی تفتیش میں انکشاف ہوا ہے کہ عامر پاکستانی دہشت گرد ثقلین، جسے چھوٹو یا بلال کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کے لیے خفیہ ایجنٹ کا کام کرتا تھا۔ پولیس نے اس کی لاش اس کے اہل خانہ کے حوالے نہیں کی۔
الطاف بٹ کا قتل: پولس کا کہنا ہے کہ گولیوں کے زخموں کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
الطاف کے قتل کے حوالے سے متضاد اور جوابی بیانات سامنے آرہے ہیں۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ الطاف کو بلال نے قتل کیا۔ الطاف نے کمرے کا دروازہ کھولا جہاں بلال کو پکڑ رکھا تھا۔ لیکن جیسے ہی دروازہ کھلا، بلال نے الطاف کے جسم میں گولیاں برسائیں جس سے وہ موقع پر ہی جاں بحق ہوگیا۔
لیفٹیننٹ گورنر شری منوج سنہا نے واقعہ کی مجسٹریل انکوائری کا حکم دیا تھا۔ پولیس کو یقین ہے کہ الطاف کی موت کی وجہ معلوم ہو جائے گی۔ ایک سینئر پولیس افسر نے جو شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا، نے کشمیر سینٹرل کو بتایا، “حقیقت کا پتہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ الطاف کو پستول کی گولی لگی تو دہشت گرد کے ہاتھوں مارا گیا۔ اگر یہ اے کے 47 کی گولی تھی تو یہ سیکورٹی فورسز کی ہوگی۔
مدثر، الطاف اور عامر کے اہل خانہ کو آخری رسومات ادا کرنے کے لیے ان کی لاشوں کی واپسی کا مطالبہ کرنے کا اخلاقی اور قانونی حق حاصل ہے۔ بدقسمتی سے سیاسی طبقے نے اپنے سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے حالات کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ وہ کسی طرح کی امن و امان کی صورتحال پیدا کرنے میں غیر ذمہ دار اور مایوس نظر آئے ہیں۔نیشنل کانفرنس کے سرپرست ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے اس بات پر شکوک کا اظہار کیا کہ آیا انکاؤنٹر میں مارا گیا چوتھا شخص دہشت گرد تھا۔ لاشوں کو نکال کر اہل خانہ کے حوالے کرنے کے فوراً بعد محبوبہ نے جلدی میں پریس کانفرنس بلائی۔ انہوں نے کہا کہ انکاؤنٹر میں مارے گئے چوتھے شخص کی لاش پر کسی نے دعویٰ نہیں کیا ہے۔ اس لئے تحقیقات کی ضرورت ہے کہ آیا انکاؤنٹر سچ میں ہوا  ہوا یا یہ پہلے سے طے شدہ ڈراما تھا۔
اس دوران سیکورٹی فورسز کا دعویٰ ہے کہ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ بدنام زمانہ غیر ملکی دہشت گرد بلال 19 نومبر کو حیدر پورہ انکاؤنٹر میں مارا گیا تھا۔
بلال کون تھا؟
ثقلین عرف چھوٹو عرف معاذ عرف بلال ستمبر-اکتوبر 2019 میں تین ساتھیوں کے ساتھ کشمیر میں گھس آیا۔ اس کے دو ساتھی مقامی تھے اور ایک غیر ملکی تھا۔ دہشت گردوں کا یہ گروپ لشکر طیبہ (ایل ای ٹی) سے وابستہ تھا، جسے بین الاقوامی سطح پر دہشت گرد تنظیم کے طور پر نامزد کیا گیا تھا اور اس پر پابندی عائد تھی۔گروپ نے گریز سیکٹر سے دراندازی کی۔ بلال کے مقامی ساتھیوں میں عابد حقانی اور قیصر منظور شامل ہیں، دونوں بانڈی پورہ سے ہیں۔کیس کی تفتیش کے دوران ایک دلچسپ حقیقت سامنے آئی۔ عابد اور قیصر 2018 میں واہگہ کے راستے پاکستان گئے تھے۔ انہوں نے قانونی سفری دستاویزات پر سفر کیا تھا۔ قیصر اکتوبر 2019 میں لاڑہ، بانڈی پورہ میں ایک انکاؤنٹر میں مارا گیا تھا۔عابد حقانی اور ثقلین عرف بلال کافی عرصے تک بانڈی پورہ میں سرگرم رہے۔ بانڈی پورہ کے ایک اویس احمد، جو ایل ای ٹی کے اوور گراؤنڈ ورکر ہیں، نے عابد اور بلال کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کی۔اویس کو بعد میں پولیس نے گرفتار کر لیا تھا اور وہ اس وقت UAPA (غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ) کے تحت جیل میں ہے۔ اویس نے بانڈی پورہ میں بالائے زمین ورکروں کا ایک نیٹ ورک بنایا تھا، جو زیادہ تر بین الاقوامی طور پر کالعدم لشکر طیبہ کے لیے کام کر رہا تھا۔
9 نومبر کو بلال کو جواہر نگر علاقے میں کالے رنگ کی آلٹو کار میں دیکھا گیا جس پر نمبر پلیٹ نہیں تھی۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ ممکنہ طور پر اس علاقے کی جاسوسی کر رہا تھا جہاں ایک سینئر صحافی مقیم ہے۔
سیکورٹی ایجنسیوں کی طرف سے جمع کی گئی معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ بلال 2020 کے موسم سرما میں راج باغ میں ایک کمرے میں قیام کر رہا تھا۔ یہ گھر راج باغ-جواہر نگر روڈ پر واقع ہے۔ تفتیش سے پتہ چلتا ہے کہ بلال اسی علاقے میں واپس جانے کا منصوبہ بنا رہا تھا۔ اس جگہ کو پولیس نے نشان زد کیا تھا اور اس کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جا رہی تھی۔
عامر لطیف ماگرے – دہشت پسندوںکاساتھی
عامر لطیف ماگرے ضلع رام بن کی تحصیل گول کے ایک دور افتادہ گاؤں سنگلدان کا رہنے والا تھا۔ وہ سری نگر کے نٹی پورہ میں باب العلوم مدرسہ میں زیر تعلیم تھا۔ ستمبر 2018 میں، عامرنے مدرسہ میں اپنا کورس مکمل کیا۔ اسی دن عامر کو ایک اور کورس کے لیے بانڈی پورہ میں دارالعلوم رحیمہ بھیج دیا گیا۔عابد اور بلال کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے والے ایل ای ٹی کے اوور گراؤنڈ ورکر اویس احمد کا گھر دارالعلوم رحیمیہ سے تقریباً 50 میٹر کے فاصلے پر ہے۔
نٹی پورہ سری نگر کے بالائی حصے میں ہے اور گزشتہ کئی دہائیوں سے، یہ علاقہ متنوع دہشت گرد گروپوں کے لیے سب سے زیادہ او جی ڈبیلومہیا کرنے کے لیے جانا جاتا ہے۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق، کشمیر میں کام کرنے والی تقریباً ہر عسکریت پسند تنظیم کے نٹی پورہ علاقے میںبالائے زمین کارکن موجود ہیں۔
عامر نے علاقے میں لشکر طیبہ کے کچھ بالائے زمین کارکنوں سے رابطہ کیایہ رابطے استوار کرنے میں عامر کی مدد باب العلوم کے کچھ اساتذہ  نے بھی کی اور عامر کو ایک منصوبے کے تحت بانڈی پورہ میں تعینات کیا گیا۔ بانڈی پورہ پہنچنے پر اویس نے عامر سے رابطہ کیا۔
عامر نے ایڈووکیٹ بابر قادری کے قتل میں بلال کی معاونت کی۔
جنوری 2019 میں بلال کا ساتھی قیصر منظور بانڈی پورہ میں ایک مقابلے میں مارا گیا تھا۔ بلال بانڈی پورہ سے سری نگر آگیا۔ پولیس ذرائع کے مطابق عامر نے بلال کے ساتھ بانڈی پورہ سے سری نگرتک کا سفر ایک ساتھ کیا۔ پولیس کے مطابق بانڈی پورہ کے عابد حقانی نے بھی اسی دن بلال اور عامر کے ساتھ سفر کیا۔ وہ 2019 تک سری نگر میں رہے اور بہت سے سافٹ ٹارگٹس کی تلاش شروع کی ۔ آخرکار بلال اور حقانی نے ایڈووکیٹ بابر قادری کو 24 ستمبر 2020 کو ان کے گھر پرقتل کر دیا۔
پولیس کے مطابق جب بلال اور حقانی نے بابر قادری کو گولی ماری تو ان کے ساتھ دو او جی ڈبلیو بھی تھے۔ ان کی شناخت راجباغ کے سام منظور بٹ اور عامر ماگرے کے طور پر ہوئی ہے۔ پولیس کی تفتیش سے معلوم ہوا کہ عامر اور سام بابر کے گھر میں داخل نہیں ہوئے۔ بابر کو گولی مارنے کے بعد عامر اور سام جلدی سے بلال اور حقانی کو گاڑی میں بٹھا کر موقع سے کسی نامعلوم منزل کی طرف فرار ہو گئے۔ سام اور اس کے ساتھی معیز احمد خان، جو کہ راج باغ سے ہیں، فی الحال پولیس حراست میں ہیں۔
ڈیجیٹل شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ عامر دو سم کارڈ استعمال کر رہا تھا۔ اس کے والد عبداللطیف ماگرے کے نام سے حاصل کردہ سم کارڈ کو عسکریت پسند کمانڈروں سے رابطے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ چونکہ عبداللطیف ایک حفاظت شدہ شخص ہے، اس لیے اس کے نام سے حاصل کردہ سم کارڈ فوری طور پر شک کے دائرے میں نہیں تھا۔ اس لیے اسے عسکریت پسندوں کے ساتھیوں نے مواصلات میں استعمال کرنے کے لیے چنا تھا۔ ذرائع کے مطابق یہ سم کارڈ پاکستان میں لشکر طیبہ کے ہینڈلرز سے رابطے کے لیے دو بار استعمال کیا گیا۔عامر کے والد عبداللطیف ماگرے کو پولیس نے اپنے گاؤں میں ایک عسکریت پسند کو مارنے کے بعد تحفظ فراہم کیا ہے۔
ڈاکٹر مدثر نے دندان سازی چھوڑ کر دلالی کیوں شروع کی ؟ یہ اس کامیدان تو نہیں تھا۔
ڈاکٹر مدثر نے بزنس مین الطاف بٹ کے کمرشل کمپلیکس میں بلال کی مددکرنے کا بندوبست کیا۔ ‘kashmirfight.wordpress.com‘ بلاگ کے مقامی دہشت گرد نیٹ ورک کا پردہ فاش کرنے کے بعد، پاکستان میں عسکریت پسند اور ان کے ہینڈلرز معلوماتی جنگ کے مقاصد کے لیے سری نگر میں ایک کنٹرول روم کی تلاش میں تھے۔ مدثر نے اس مقصد کے لیے الطاف بٹ کی جائیداد میں ایک ہائی ٹیک لیب قائم کی۔ بلال کو پاکستان میں ہینڈلرز کو معلومات فراہم کرنے کے لیے یہاں منتقل کیا گیا تھا۔ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ مدثر کے ساتھی جو کہ اب پولیس کی حراست میں ہیں، نے اعتراف کیا ہے کہ بلال تقریباً دو ماہ سے الطاف بٹ کے گھر میں مقیم تھا۔
مدثر کے ساتھیوں کو کیسے گرفتار کیا گیا؟
پولیس نے الطاف کی جائیداد میں ہائی ٹیک لیب میں استعمال ہونے والا ڈونگل اور دیگر ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئر قبضے میں لے لیا۔ جب بلال کے زیر استعمال سافٹ ویئر کا ڈیٹا ریکورکیا گیا تو مدثر کے ساتھی کی رہائش گاہ کو پن کر دیا گیا۔ پولیس نے آخر کار مدثر کے ساتھی کو گرفتار کر لیا۔ اسے حراست میں لے لیا گیا۔ اس نے اعتراف کیا کہ بلال کم از کم دو راتیں ان کی رہائش گاہ پر ٹھہرا تھا۔اس شخص نے یہ بھی انکشاف کیا کہ اس نے بلال کو مدثر کے نام نہاد کال سینٹر میں کئی مواقع پر دیکھا تھا۔مدثر کے چار دیگرساتھی بالائے زمین کارکن تھے اور کال سینٹر میں اکثر آتے تھے۔جو وہاں پر کافی عرصے تک رہنے کے لئے آئے تھے ان میں سے دو کا تعلق راج باغ سے تھا۔ ایک کا تعلق نوا کدل سے اور چوتھا راولپورہ سے۔وہ  ان علاقوں کی چھان بین اور حملے کی منصوبہ بندی کرنے کے لیے وہاں قیام کرتے تھے اور پاکستان میں اپنے ہینڈلرز کے ذریعے شناخت کیے گئے سافٹ ٹارگٹس پر عمل درآمد کا منصوبہ بناتے تھے۔ان کا کام بلال کے ساتھ ان جگہوں پر بھی جانا تھا جہاں یہ سافٹ ٹارگٹ مقیم تھے۔
متنازعہ حیدر پورہ انکاؤنٹر کے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ پولیس اور سیکیورٹی اداروں کے مطابق دہشت گرد نیٹ ورکس میں مدثر اور عامر کے ملوث ہونے کا پتہ چل گیا ہے۔ ان کے ملوث ہونے کے ٹھوس ڈیجیٹل اور طبعی ثبوت موجود ہیں۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ مدثر اورعامر دونوں غیر مسلح تھے۔ غیر جنگجوؤں کو مارنا جائز نہیں ٹھہرایا جا سکتا چاہے وہ سرگرم عسکریت پسندوں کو رسدہی کیوں نہ فراہم کر رہے ہوں۔ ان پر غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی پاداش میں عدالت میں مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔ پولیس کے اعلیٰ حکام واضح طور پر اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ عامر، مدثر یا الطاف کو نشانہ بنایا گیا۔ پولیس افسران اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ حملے میں استعمال ہونے والی گولیوں کا مطالعہ کر کے یہ آسانی سے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ مدثر اور عامر کو بلال نے ہی گولی ماری۔
واقعہ کی مجسٹریل انکوائری جاری ہے۔ رپورٹ جلد متوقع ہے۔ حیدر پورہ واقعہ میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین رپورٹ کا بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں۔ جن کا کہنا ہے  کہ اس پورے آپریشن میں کچھ خامیاں تھیں جس کی وجہ سے سیکورٹی فورسز کی طرف انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ایل جی شری منوج سنہا نے آپریشن میں پائی جانے والی غلطیوں پر سخت کارروائی کا عہد کیا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here