کشمیر کی اکثریتی برادری نے ہر وقت تشدد کومسترد کردیا
بدگو کشمیر میں اگست 2019کے بعد کشمیر میں حالات کی ڈگر کو جو درست سمت ملی تھی اس کوگزشتہ دنوں ہونے والی دہشت گردانہ کارروائی کے پس منظر میں دیکھ رہے اوراسی بنا پر حکومت کی امن بحالی کی کوششوں پر انگلیاں اٹھانے لگے ہیں ۔بدگو افراد کو یہ طبقہ جس میں سیاستدان،رائے عامہ سے وابستہ افراد اور ذرائع ابلاغ کے مختلف ادارے شامل ہیں۔ عام کشمیری کے ان دعووں کو کالعدم کرنے کی لئے ایڑی چوٹی کا زور لگانے میں مصروف ہیں جنہوں نے کھلے عام یا دبے لفظوں میں ہی سہی اس بربریت اور وحشیانہ پن کو یکسر مسترد کیا ،لیکن یہ مخصوص طبقہ اپنی دلائل کو پختہ ثابت کرنے کے لئے نہ جانے کہاں کہاں سے ہلاکتوں اور تشدد آمیز واقعات کے اعداد شمار جمع کرکے لائے ہیں وہ ایسے افراد بہتر طور پر جانتے ہیں جن کو کشمیر میں حالات کی بہتری ہضم نہیں ہورہی ۔
رواں سال کے آغاز سے اب تک 28 عام شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔یہ اعداد شمار رپریشانی کا باعث ہوسکتے ہیں ،کیونکہ یہ چندماہ کے اندرہونے والی مختلف معصوم ہلاکتوںکی بڑی تعداد ہے ۔جوکہ تشویشناک ہے ،
حالات معمول پر آنے کے دعووں کو نادانی سمجھا جاسکتا ہے کوئی ہرج نہیںلیکن یہ بدگو شہری ہلاکتوں میں اضافے کو آئین کے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد اکثریتی برادری میں عدم تحفظ کے احساس سے جوڑ دیتے ہیں ۔ایسے افراد کی منطق یہ ہے کہ 370کی منسوخی اور اس کے بعد کئے جانے والے حکومتی اقدامات ایسے قتل میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔ان لوگوں کا دعویٰ ہے کہ حکومتی نظام پر لوگوں کا اعتماد اٹھ گیا ہے اورانتظامیہ لوگوں کے من جیتنے اور اعتماد بحال کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ درحقیقت ایسی صورتحال خوفناک ہے۔اس کے لئے نئی دلی اور سرینگر کو حالات کا جائزہ لے کرفوری نتائج اخذ نہیں کرنے چاہئے ۔ کیونکہ کشمیر میں جاری تشدد کو باضابطہ تیار اور تعمیر کیا گیا جس کے لئے سرحد پار بیٹھے دشمن ذمہ وار ہیں۔اس میں مقامی کچھ بھی نہیں اس لئے لازمی ہے کہ ایسے واقعات کوکشمیر کے منظر نامے سے علیحدہ کرنا مشکل ہے۔لیکن مخاصم عناصرجان بوجھ کر یا دوسری صورت میں کشمیر کی موجودہ صورتحال کے بارے میں ایک بنیادی سچائی کو نظر انداز کرتے ہیں۔
زمینی حقیقت۔
کشمیر کی اکثریتی برادری 5 اگست 2019 کی پیش رفت سے خوش ہو سکتی ہے یا نہیں۔ کشمیری مسلمانوں کو اب بھی حکومت کے ساتھ حقیقی شکایات ہو سکتی ہیں۔لیکن کشمیر میں اکثریتی برادری کے درمیان ایک بڑی تبدیلی آئی ہے ، خاص طور پر 5 اگست 2019 کے واقعات کے بعد۔ اکثریتی برادری نے تشدد کو اپنے تمام مظاہروں میں مسترد کردیا بندوق نے معاشرتی منظوری کھو دی ہے۔ بہ الفاظ دیگر تشدد نے کشمیری سماج میںاس کو ہرروپ میں حاصل معاشرتی منظوری کھو دی ہے۔ مخالفین جسے “عدم تحفظ” کہتے ہیں اس کا پرتشدد اظہار معنی کھو چکا ہے۔ یہ آج کے دن کی حقیقت ہے۔
مسلح گروہوں کے ہاتھوں معصوم شہریوں کا قتل پاکستان کی طرف سے مسلط کردہ ایک نیا کلچر ہے۔ آرٹیکل 370 کی تنسیخ ایک کامیابی تھی یا کوئی خامی اس سے قطع نظر کچھ اندازے ہیںجو یہ بتاتے ہیں کہ کشمیری سماج نے تشدد کویکسر مسترد کردیا اور آج کے کشمیر میں اس کو قبولیت کا وہ شرف حاصل نہیں جو کسی وقت میں تھا۔خیال رہے کہ سانپ کبھی خود اپنے ہی زہر سے مرتا ہے جیسا یہاں تشدد کے ساتھ ہوا جو اپنی موت آپ مر رہا ہے ۔
کشمیر نے تشدد کی وجہ سے بہت زیادہ نقصان اٹھایا ہے۔ یہ مزید تکلیف برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ قتل میں مدد کو غیر ملکی طاقتوں کی طرف سے ایک بار پھر کشمیر کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جانا چاہیے ، بنیادی طور پر اس وجہ سے کہ کشمیری اپنے آپ کو غیر ملکی طاقت کے ناپاک منصوبے کاحصہ بنانے پر راضی نہیں ہیں لیکن مخالفین اس نئی حقیقت کو نظر انداز کرتے ہوئے وہی پرانا راگ الاپ رہے جس کی تان بہت پہلے ٹوٹ چکی ہے