اونٹ کے منہ میں زیرہ
پٹے کی میعاد ختم ہوگئی ، دہائیوں سے از سر نو جائزہ کی کوشش نہیں ہوئی
خزانے کو ہو رہا ہے خسارہ
پہلگام، گلمرگ اور سونمرگ میں قیمتی سرکاری زمین حکومت نے مال مالکان، ہوٹل والوں اور دیگر سیاحتی شعبے سے منسلک ا فراد کوپٹے پر دی ہے۔مذکورہ ہوٹل ،صارفین سے کرایہ کے طور پر بھاری رقم وصول کرتے ہیں، اوراسی طرح شاپنگ مالوں کے مالکان اپنے کرایہ داروں سے موٹی رقم وصولتیہیں۔
سوال یہ ہے کہ ان ہوٹلوں اور شاپنگ مالوں کے مالکان اہم تجارتی املاک پر قبضے کے لیے حکومت کو کتنی رقم ادا کر رہے ہیں؟ جواب جان کر آپ حیران رہ جائیں گے کہ یہ کارباوری چودھری جو رقم حکومت کو بطورکرایہ ادا کرتے ہیں وہ ان ہوٹلوں اور شاپنگ مال مالکان کی آمدنی کے مقابلے میں کوڑیوں کے برابربھی نہیں ہے
پرائم کمرشل اراضی حکومت نے ان کاروباری اشخاص کو کئی دہائیاں قبل معمولی رقم کے عوض مختصر مدت کے لئے پٹے پر دی تھی تاہم متواتر حکومتوں نے کبھی اس کرایئے کی تجدید نہیں کی ہے ، آج کے دور میں جہاں معمولی قطعہ اراضی کی قیمت بھی کروڑ سے کم نہیں ، ان قیمتی زمینوں کی قیمت وہی ہے جو برسوں پہلے طے کی گئی تھی جب قیمتیں معمولی تھیں۔ان اعداد و شمار پر کبھی کسی حکومت نے نظر ثانی کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی اس طرح حکومت اور سرکاری خزانوں کو ان شاہانہ جائیدادوں سے کوڑیاں ملنا جاری ہے جبکہ اس معاملے میں حکومت خسارے میں ہے جبکہ ان جائیداددوں کے پٹے داروں کی چاندی ہے ۔
کشمیر کی سیاحتی صنعت کے شہ سواروں نے وادی کے ان مشہور سیاحتی مقامات پر 80 کی دہائی کے آخر سے ہوٹل قائم کرنا شروع کئے اور آج تک ان سے کروڑوں کا منافع حاصل کیا ہے ، چونکہ اس دوران کرایوں کی تجدید نہیں کی گئی جو کہ مرکزی زیر انتظام والا یہ خطہ اس ترقی پذیر صنعت کی وجہ سے خسارے سے دوچار ہوا۔جس کی وجہ ماہرین یہ بتاتے ہیں کہ کسی حکومت نے آج تک اس کے تدارک کی جانب کوئی اقدام نہیں کئے ہیں ۔
ارباب اقتداراور بیوروکریسی کی ملی بھگت
سیاسی وڈیروں اور افسر شاہی کی ملی بھگت سے عجیب صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ پہلگام، گلمرگ اور سو نہ مرگ میں جائیدادیں رکھنے والے تاجر تجارتی جگہ کے استعمال کے لیے حکومت کو کرایہ کے طور پر انتہائی کم رقم ادا کر رہے ہیں۔ وہ زمرے کے لحاظ سے اپنے ہوٹلوں کے لیے اعلیٰ کمروں کا کرایہ وصول کر رہے ہیںجبکہ حکومت ان مشہور سیاحتی مقامات سے ہونے والی بہتر آمدنی سے محروم ہو رہی ہے۔
مثال کے طور پر، سری نگر میں سٹی مال 500 روپے فی مربع فٹ کرایہ لیتا ہے۔ سری نگر کی ایک اور اہم جائیداد سہارا سٹی مال کا بھی یہی حال ہے۔ آئیے ہم اس کا موازنہ اس کرائے سے کریں جو ریاست کو پہلگام، گلمرگ اور سو نہ مرگ میں لیز پر لی گئی اہم تجارتی زمین کے لیے دیا جاتا ہے۔
اوسطاً فی کنال کرایہ 600 روپے سالانہ ہے۔ یعنی ہوٹل آپریٹر 50 روپے فی کنال ماہانہ ادا کر رہا ہے۔
اب کشمیر کے معروف ہوٹلوں کی کمائی پر نظر ڈالیں۔رات بھر کے لئے کمرے کا کرایہ 15,000 روپے سے لے کر 2.5 لاکھ روپے تک ہو سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ 30 کمروں والے ہوٹل سے ایک دن کی آمدنی لاکھوں روپے بنتی ہے۔ لیکن حکومت کو اہم تجارتیجگہ سے کرایہ کے طور پر صرف 1 روپے یومیہ مل رہا ہے۔ یعنی ماہانہ 30روپے
گلمرگ میں تقریباً 462 کنال اور 45 مرلے 57 ہوٹلوں اور ہٹ کے لیے لیز پر دیے گئے ہیں۔ اس تمام اہم جائیداد سے حکومت کو صرف 23,100 روپے کرائے کے طور پر ملتے ہیں۔
سونے پہ سہاگہ یہ ہے کہ پچھلے 10-12 برسوں سے لیز کے طور پر مقرر کی گئی کم رقم بھی حکومت کو ادا نہیں کی گئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پٹے کی میعاد اب ختم ہو چکی ہے۔ پہلگام کے لیے، لیز پر 1930 میں دستخط کیے گئے تھے۔ اس کی تجدیدکاری نہیں کی گئی جبکہ اس پٹے کی میعاد کب کی ختم ہو چکی ہے۔ اس لیے اس جگہ پر قابض نجی مالکان کوئی کرایہ ادا نہیں کر رہے۔
اسی طرح گلمرگ کے لیے 1978 میں 40 سال کے لیے 90 فیصد لیز پر دستخط کیے گئے تھے۔ ان کی میعاد 2018 میں ختم ہو گئی۔ذرائع سے پتہ چلتا ہے کہ 100 سے زائد جائیدادوں کی لیز ختم ہو چکی ہے۔اور برسوں سے اس مسئلے کو نہ تو سیاسی سرداروں نے حل کیا اور نہ ہی بیوروکریسی نیصورتحال یہ ہے کہ جن اشخاص کی لیز کی مدت گزشتہ 10-12 سال قبلختم ہو چکی ہے وہ کرایہ کی معمولی رقم بھی ادا نہیں کر رہے۔ معیاد ختم ہونے والے پٹے ان کے لیے سونے پہ سہاگہ ثابت ہو رہی ہے۔
لیز اور کرایہ کی تجدید کیوں نہیں کی گئی؟
پچھلی حکومتوں یا بدعنوان افسران کی طرف سے لیز پر دی گئی زمین کے مسائل کو حل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی کیونکہ ان کے امیر ہوٹل والوں کے ساتھ گٹھ جوڑ رہے ہیں۔ لیز کی رقم بڑھانے یا ختم شدہ لیز کی تجدید کے لیے کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ ان سیاحتی مقامات سے وابستہ زیادہ تر افسران اپنی ذاتی مفادات کی آبیاری میں مصروف تھے، جس کے نتیجے میں بدانتظامی اور ریاست کو آمدنی کا نقصان ہوا۔
پہلگام میں کوئی بھی اتھارٹی یہ قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ وہ لیز کے معاملے کے بارے میں جانتے ہیں۔
محض الزام تراشی کا سلسلہ جاری
مسرت ہاشم، چیف ایگزیکٹیو آفیسر (سی ای او)، پہلگام
میں کمرشل پراپرٹی کے لیز کے بارے میں نہیں جانتا ہوں۔ یہ محکمہ مال دیکھ رہا ہے۔ براہ کرم ان سے رابطہ کریں۔
ایڈیشنل ڈپٹی کمشنراننت ناگ غلام حسن شیخ
مجھے لیز پر دی گئی زمینوں کے بارے میں کچھ نہیں معلوم۔ ایس ڈی ایم پہلگام سے بات کریں۔ وہ موجودہ حالت کو جانتا ہے۔ ہم اننت ناگ میں دو اے ڈی سی ہیں۔ میں آمدنی کے معاملات کو نہیں دیکھتا۔ میں صرف غیرمالی معاملات سے نمٹتا ہوں۔
سب ڈویڑنل مجسٹریٹ سید نصیر
اس دفتر کے پاس کوئی ریکارڈ نہیں ہے کہ سرکاری زمین لیز پر دی گئی ہے، اس لیے کسی سے کرایہ لینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جو زمین لیز پر دیتا ہے وہ کرایہ کا فیصلہ کرتا ہے۔ جب سے میں یہاں ہوں کوئی زمین کسی کو لیز پر نہیں دی گئی۔ اس لیے میرے پاس اس حوالے سے کوئی معلومات نہیں ہیں۔ بظاہر یہاں کے پٹے بہت پرانے ہیں۔ شاید انہیں دہائیوں پہلے دیا گیا تھا۔ میں تبصرہ نہیں کر سکتا۔ آپ دوسرے دفاتر سے رجوع کر سکتے ہیں۔ میں آپ کو آج کی معلومات فراہم کر سکتا ہوں۔ یہ دفتر 2014 میں قائم کیا گیا تھا۔ پہلگام سے کسی بھی زمین کو لیز پر لینے کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے، اور اس دفتر میں کوئی معلومات دستیاب نہیں ہے۔ ہم کسی سے کرایہ نہیں لیتے۔ ہم کسی بھی طرح سے زمین کو لیز پر دینے اور کوئی معاہدہ کرنے سے منسلک نہیں ہیں۔
کوئی ایکٹ نہیں ہے جس کی رو سے کرایہ بڑھایا جا سکے۔
ڈاکٹر ظہور احمد رینہ (جے کے اے ایس)، چیف ایگزیکٹو آفیسر، ٹورازم ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ٹی ڈی اے) گلمرگ کی کشمیر سینٹرل سے بات چیت
کشمیر سینٹرل نے جب ڈاکٹر ظہور احمد رینہ سی ای او ٹورازم ڈیولپمنٹ اتھارٹی سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا، کہ ریاست کی زمین 2005 میں ٹی ڈی اے گلمرگ کو منتقل کی گئی تھی تاکہ اسے دلچسپی رکھنے والے بلڈرز کو 90 سال کے لیے لیز پر دیا جا سکے۔ آرٹیکل 370 کے خاتمے سے پہلے، لینڈ گرانٹ ایکٹ کام کر رہا تھا۔ اب زمین کسی کو لیز پر نہیں دی جا سکتی۔ لیز پر زمین دینے کی اب کوئی پالیسی نہیں ہے۔
ہوٹل والوں سے لیز کرایہ وصول کرنے کے بارے میں ڈاکٹر رینہ نے کہا کہ یہ رقم بہت کم ہے۔ اس کی قیمت 10 روپے سے 600 روپے فی کنال تک ہے۔ لیز کے نرخ بہت کم تھے کیونکہ کوئی بھی دلال زمین لیز پر لینے کو تیار نہیں تھا۔ ریاست زمین الاٹ کرتی تھی، اور ہوٹل والے اپنے طور پر ڈھانچے بناتے تھے۔
یہاں ہوٹل والے پھل پھول رہے ہیں تو 2005 کے بعد کرایہ پر نظر ثانی کیوں نہیں کی گئی؟
ہاں ہمیں کرایہ بڑھانا چاہیے۔ لیکن عدالت نے 2012 میں مداخلت کی۔ اس پورے معاملے پر نظرثانی کی ضرورت ہے، اور ہم اس حکم کے مرکزی فریق ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک یونیورسٹی ہم سے کرایہ وصول کرنے کو کہہ رہی ہے۔
لیکن ہم یونیورسٹی سے کرایہ نہیں لے سکتے۔ پہلے ہمیں یہ معلوم کرنا ہوگا کہ یونیورسٹی نے 10-12 کنال پر کیسے قبضہ کیا۔ ان کے پاس کاغذات نہیں ہیں۔ انہوں نے زمین پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔
اسی طرح کچھ ہوٹلوں کو دی گئی سرکاری اراضی کی لیز کی مدت ختم ہو چکی ہے۔ ہوٹل کرایہ ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ بدلے میں، وہ ایسے کاغذات مانگ رہے ہیں جو زمین کے ان کے مسلسل استعمال کو منظم کریں گے۔
ہمیں اس سلسلے میں عدالت سے ہدایات درکار ہیں۔ ہم کرایہ دس گنا بڑھا سکتے ہیں لیکن ہمیں کسی ایکٹ کے تحت کام کرنا ہوگا۔ آج تک کوئی ایکٹ نہیں ہے جو لیز کے حصے کو ریگولیٹ کر سکے۔ ہمیں امید ہے کہ کوئی نیا ایکٹ سامنے آئے گا جس کے ذریعے ہم لیز کے حوالے سے فیصلہ کر سکیں گے۔
کیا ہوٹل والے اور دیگر جنہوں نے کمرشل جگہ لیز پر لی تھی وہ کم لیز کی رقم ادا کر رہے ہیں جو پہلے طے کی گئی تھی؟
صرف چند لوگ ہی اس رقم کو ادا کر رہے ہیں۔ میں حکومت کو خط لکھ رہا ہوں کہ وہ اس معاملے پر فیصلہ کرے۔ عدالت نے جو کہا ہمیں اس پر عمل کرنا ہوگا۔ ہمیں بھی حکومتی قوانین کی پابندی کرنی ہوگی۔ میں لیز کی رقم یا ادائیگی سے متعلق قانون مرتب نہیں کر سکتا۔
لوگ یہ نہیں کہیں گے کہ انہوں نے لیز کی رقم ادا نہ کرنے یا پہلے طے شدہ کم رقم ادا کرکے کوئی غلط کام کیا ہے۔ درحقیقت کاروباری اشخاص مزید زمین لیز پر مانگ رہے ہیں ۔
یہ مسئلہ صرف گلمرگ کے لیے مخصوص نہیں ہے۔ اور بھی جگہیں ہیں جہاں زمین کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔ یہ وہی معاملہ ہے جہاں شادی مکمل طور پر ناکام ہو جاتی ہے لیکن دونوں پارٹنر پھر بھی بڑھاپے تک رشتہ جاری رکھتے ہیں۔
کیا آپ نے اس مسئلے پر LG یا کسی اور سینئر اتھارٹی سے بات کی ہے؟
آپ ایک بہت چھوٹے اور چھوٹے گاؤں کے افسر سے بات کر رہے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ اعلیٰ سطح پر کیا ہو رہا ہے، اور کوئی مجھ سے نہیں پوچھتا۔ میں گلمرگ کے ٹٹو والوں اور دکانداروں کا افسر ہوں۔ بڑے مسائل سے نمٹنے کے لیے اعلیٰ حکام موجود ہیں۔ ایل جی، کمشنر، ڈی سی اور دیگر۔ یہ لوگ مجھ سے زیادہ علم رکھتے ہیں۔ میں ان کا مشیر کیسے بن سکتا ہوں؟ میں ایک نچلے درجے کا ملازم ہوں۔ میں ان کے حکم پر عمل کروں گا۔