وسیم گل
2016کی شورش ( جسے برہان وانی ایجی ٹیشن کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ) میں جس پیمانے پر سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا اور اس ایجی ٹیشن میں 100سے زائد جانیں تلف ہوئیں کے فوراً بعد انیس السلام کومحکمہ سیاحت جموں وکشمیر کے” شیر کشمیر انٹرنیشنل کنوکیشن سینٹر میں ریسرچ آفیسر تعینات کیا گیا“
دو ہزار سولہ کامذکورہ احتجاج جماعت اسلامی جموں وکشمیر اور حریت کانفرنس کی ذہنیت کی پیدوار تھا چونکہ ان دونوں علیحدگی پسند جماعتوں کی سوچ جموں وکشمیر کا پاکستان سے انضما رہا ہے اور دونوں کاملاپ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ، انیس کے والد الطاف احمد شاہ ( المعروف الطاف فنتوش) اور نانا سید علی شاہ گیلانی ابتدا ءسے ہی ہندوستانی وفاق کے کٹر دشمن رہے ہیں۔
دہشت پسندی اور علیحدگی پسندی کی سوچ اور انتہا پسند ی کے حامی انیس السلام کا خاندان دہشت پسند کارروائیوں اور ایسی سرگرمیوں کے لئے عوام الناس کو اکسانے کا مجرم ہمیشہ سے رہا ہے ،آسان ا الفاظ میں اگر کہیں تو گیلانی خانوادہ وادی کشمیر میں بھارت مخالف سرگرمیوں کا ہمیشہ وکیل بھی رہا اورسرخیل بھی ۔آج جو کشمیر میں ہورہا ہے اس کو ہوا دینے میںگیلانی اور اس کے رشتے داروں کا بڑا ہاتھ ہے ، خود انیس السلام کا والد الطاف فنتوش اور اس کے تین قریبی رشتے دار شدت پسندی اور دہشت پسندی کے مختلف واقعات میں ملوث پائے گئے ہیں ۔الطاف فنتوش جماعت اسلامی طلبہ ونگ کا اولین رکن اور ناظم اعلیٰ (ضلعی صدر) سری نگر بھی رہا ۔جماعت اسلامی میں اپنی مضبوط ساکھ اور گہری جڑوں کے ساتھ اس نے ایسے رابطے استوارکئے تھے کہ جلد اس کو سید علی شاہ گیلانی ، جوکہ فنتوش کا سسر بھی تھا ، تحریک حریت کا ایگزیکیٹو ممبر بن گیا ۔واضح رہے کہ انیس السلام کا والد دہشت گردی فنڈنگ کیس کی تحقیقات ، جو این آئی اے کے سپرد ہے ،کے سلسلے میں تہاڑ جیل میںنظر بند ہے ۔
جماعت اسلامی نہ صرف دہشت پسند تنظیم حزب المجاہدین (ایچ ایم) کی سرپرستی کرتی ہے ، جو عالمی سطح پر نامزد دہشت گرد گروپ ہے ، بلکہ وادی میں انتہا پسندی کو فروغ دینے اور اسے برقرار رکھنے کے لیے بھی ذمہ دار ہے۔ اپنی مسلح ونگ ایچ ایم کے ذریعے ، جماعت اسلامی نے
جموں وکشمیر کو بھارتی وفاق سے علیحدہ کرنے کی خاطر تشدد اور زور و زبردستی کی وکالت بھی کی اور اس کی مشق بھی ،۔ حالانکہ وادی میں تشدد میں حالیہ اضافے کا ذمہ دار گروہ دی ریزسٹنس فرنٹ ، ٹی آر ایف ہے (جسے لشکر طیبہ کابغلی بچہ یا ایک شاخ سمجھا جاتا ہے) لیکن وادی میں مقیم تمام گروہ بڑے پیمانے پر جماعت اسلامی ور ایچ ایم پر انحصار کرتے ہیں۔ مقامی مدد ،جس میںرسد وغیر ہ کی فراہمی شامل ہے کے لئے جماعت اسلامی اور ایچ ایم جبر اور خوف کو بطور ہتھیار استعمال کرکے حاصل کرلیتے ہیں ۔
انیس السلام کے نانا اور تحریک حریت کے سربراہ سید علی شاہ گیلانی ایک سخت گیر علیحدگی پسند تھے جنہوں نے کھلے عام تشدد کو جموں و کشمیر سے ہٹانے کے لیے استعمال کیا اور اس کے پاکستان میں انضمام کی۔ ، تشدد اور تحفظات کی وکالت ، ہندوستانی قیام اور سیکورٹی فورسز کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر ، بھارت اور جموں و کشمیر کے جمہوری اداروں کے انتخابات کے بائیکاٹ کا مطالبہ ، دہشت پسندی کو گلیمراز یا ذوق و شوق بنانے کے علاوہ۔ گیلانی اس وقت تک علیحدگی پسندی کاچہرہ بنے رہے جب تک آئی ایس آئی نے اگست 2019میں آئین ہندکی دفعہ 370کی تنسیخ کے بعد انہیں پس پشت نہیںڈالا، خودگیلانی پر تشدد کی مختلف واردتوں اور بھارت مخالف بیانات پر 100سے زاید ایف آئی آرمختلف تھانوں میںدرج ہیں۔
گیلانی کی نواسی اور انیس السلام کی بہن جو پیشے سے صحافی ہے ، علیحدگی پسند خاندان کے ذرائع ابلاغ کی وارث ہے ، وہ مختلف بین الاقوامی رسائل کے لئے لکھتی ہیں اور جنوبی افریقہ میں قائم ایک میڈیا ادارے ”سلام میڈیا“ میں ”روا شاہ“ شو کی میزبانی کرتی ہے۔ اس شو کے ذریعے سے وہ حکومت ہند کے خلاف بے بنیاد اعداد وشمار پیش کرکے بین الاقوامی سطح پر باضابطہ پروپگنڈا چلاتی ہے ۔روا شاہ جس نے حکومت ہند اور ریاستی فورسس کی حفاظت کے سائے میں پرورش پائی اور اپنا گھونسلہ اب ترکی میں بنایا ،جہاں سے وہ دنیا بھر میں بھارت مخالف بیانئے کی تشہیر کررہی ہے اور اس بیانئے کی قاید بھی ہے ،
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ 2015 سے بھارت مخالف کشمیری کارکنوں کی ایک بڑی تعداد نے ترکی میں پناہ حاصل کی ہے ، اور ترکی بھارت کے خلاف داستانی جنگ کا نیا مرکز بن گیا ہے۔ رووا شاہ نے اس سب کے دوران متاثرہ کارڈ کھیلا ،جہاں دوسری طرف اس کے بھائی نے ہندوستان میں سرکاری ملازمت کے مکمل فوائد کے ساتھ ریاستی سرپرستی بھی حاصل کی وہی دوسری جانب اس کی بہن رووا شاہ اپنے باپ اور دادا کے نظریات کو پھیلانے کے لیے خوشگوار پلیٹ فارم کے ذریعے میڈیا اور سوشل میڈیا کی مہارت کا استعمال کرتی آرہی ہے۔
یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ ایک ایسا خاندان جو اس قدر مضبوط علیحدگی پسند اور تشدد کے واقعات میں مجرم ثابت ہوتا ہے وہ نظام کے اندر سے فعال تعاون کے بغیر خود کو سرکاری عہدوں پر باآسانی کیسے قائم رکھ سکتا ہے۔ ایسی تقرریوںپر خفیہ ایجنسیوں نے کوئی اعتراض کیوں نہیں اٹھایا؟ کیونکہ ریاست میں سرکاری نوکری حاصل کرنے کے بعد بھی سی آئی ڈی کلیرنس ضروری ہے ۔معتبر ذرائع یہ بھی تصدیق کرتے ہیں کہ
انیس السلام سرکاری نوکری حاصل کرنے سے قبل باضابطہ سری نگر شہر اور اطراف میں بھارت مخالف سرگرمیوں میںملوث تھا ۔موصوف کی ایسی سرگرمیاں واضح طور پر ظاہر کرتی ہیں کہ انیس اس پوشیدہ ایجنڈے کو خاندان کے اراکین کے کہنے پر انجام دیتا تھا۔کیونکہ اس کا خاندان جموں وکشمیر میںانتہا پسنداور علیحدگی پسند سرگرمیوں کے فروغ میں سب سے آگے رہاہے۔
انیس السلام کا ملک کی سلامتی اور سالمیت کے لئے خطرہ ہونا اس حقیقت سے بھی لیا جاسکتا ہے کہ ، 2008میں جب اس نے پاسپورٹ کے حصول کے لئے داخل کی تو ، خفیہ ایجنسیوں نے اس کے حق میں منفی رپورٹ دی ،لیکن انیس السلام نے معزز ہائی کورٹ سے پاسپورٹ کے حصول کے لئے اجازت حاصل کی ۔
ذرائع کے مطابق ، انیس السلام کی 2016 میں SKICC میں بطور ریسرچ آفیسر تقرری پر شکوک و شبہات ہیں۔یہ بات ڈھکی چھپی نہیں
کہ انیس السلام کو SKICCمیں گزیٹیڈ عہدے پر تقرری دراصل برہان وانی ایجی ٹیشن کے خاتمے کیلئے حکومت اور حریت کے مابین خفیہ معاہدہ تھا ۔ تحریک کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ اس وقت کی انتظامی مشینری اور حریت کی ملی بھگت تھی ۔
چونکہ انیس السلام کے خلاف قابل اعتماد تکنیکی ثبوت رازداری کا معاملہ ہے ، ملک کے لوگوں کو آئی ایس آئی کے ساتھ اس کے لین دین کی تفصیلات جاننے کا حق ہے۔ یہ اتفاقی بات نہیں ہے کہ پاکستان سے ان کی واپسی کے فورا بعد ، ہفتوں کے اندر ،انیس السلام کو حکومت کی طرف سے مکمل طور پر مالی اعانت حاصل کرنے والے ایک مستقل عوامی عہدے پر تعینات کیا گیا جو کہ اب انتہائی بے قاعدہ اور خلاف ورزی شدہ اصولوں کے مطابق پایا گیا ہے۔
انیس السلام کو حکومت کی مالی اعانت سے پبلک ایمپلائمنٹ دینے کا فیصلہ چند حقائق سے واضح ہے:
(الف )اس پوسٹ کو بھرنے کی کوئی فوری ضرورت نہیں تھی جو 2005 سے خالی تھی۔
(ب )اس پوسٹ کے لئے کوئی بھی میرٹ لسٹ نہیں ، کسی بھی مسابقتی امتحان نہیں ہوا ، جو کچھ بھی ہو ،وہ قبل ازیں تیار تھا۔
(پ) درحقیقت ، شروع سے ہی ، یعنی پوسٹ کی تشہیر کے وقت ، امتحان کی اسکیم یا میرٹ کا فیصلہ کرنے کے معیار کو مطلع کرنے سے گریز کرتے ہوئے بھرتی عمل میں دھاندلی کی گئی۔ چونکہ کوئی بھی سلیکشن کمیٹی کم ازکم ان بنیادی نکتوں کو نظر انداز نہیں کرتی ۔
(ت )اس حقیقت کا مزید ثبوت یہ ہے کہ متعدد عدالتی احکامات کی مکمل خلاف ورزی ہے جس میںانٹرویوممبران نے ان عدالتی ضوابط کی خلاف ورزی کی جس میں نمبرات مختص کرنے کی نونی نوعیت کو واضح کیا ہے کہ میرٹ کا فیصلہ کرتے ہوئے انٹرویو کتنے مارکس دیئے جائیں اور انٹرویودینے والے امیدار کی شخصیت کو محض 5نمبرات دئے جاسکتے ہیں,انٹرویو ممبران نے یہ ہدایت سراسر نظر انداز کردیئے۔
یہ نوٹ کرنا بھی مناسب ہے کہ SKICC میں ریسرچ آفیسر کا عہدہ جو کہ انیس السلام کے حوالے کیا گیا تھا ، ایک انتہائی حساس پوزیشن ہے۔ SKICC جموں و کشمیر حکومت کی سب سے معزز کنونشن اور کانفرنسنگ سہولت ہے جو کہ بہت اعلیٰ سطحی اجلاسوں اور کانفرنسوں کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ یہ سیمینار ، سمپوزم اور ورکشاپوںکے دوران زیر بحث موضوعات اور مضامین کے نقطہ نظر سے حساس ہے۔ یہ خطرہ کی سطح کے تحت VIPs کے نقطہ نظر سے بھی حساس ہے جو ان تقریبات میں شرکت کرتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں صدر جمہوریہ نے کشمیر یونیورسٹی کے کانووکیشن تقریب کی صدارت کی یہی پر کی۔کیا اتنی اہم اور حساس جگہ پرایسے کسی شخص کوتعینات کیا جاسکتا ہے جس کی ملک دشمنی اورانتہا پسند سوچ واضح ہو ۔
فاروق بٹ
ڈوڈہ کے پاگسو کا رہائشی فاروق احمد بٹ کو بھی قومی سلامتی کو درپیش خطرے کے پیش نظر انتظامیہ نے سرکاری نوکری سے برخاست کیا، فاروق احمد بٹ 2005 میںمحکمہ تعلیم رہبرِ تعلیم استاد تعینات ہوااور 05 سال کی خدمت مکمل کرنے کے بعد 2010 میںاس کی نوکری کو باقاعدہ کیا گیا ۔فاروق ، بھارت کے خلاف جنگ چھیڑنے کے حتمی مقصد کے ساتھ ڈوڈہ ضلع میں ایک دہشت پسند نیٹ ورک بنانے میں ملوث تھا۔
فاروق کے اہل خانہ نے بھی اس کے عمل میں اس کی حامی تھے اور اس کی دہشت پسندی کے سخت حامی تھے۔ خاندان کے افراد فاروق کے ارادوں اور سرگرمیوں سے ناواقف تھے لیکن دہشت پسندی سے متعلق سرگرمیوں کو اکسانے اور ان کی مدد کے لیے برابر کے ذمہ دار تھے۔ فاروق نے دہشت پسندوں کو مقامی ہمدردی اور معاونت اور پناہ فراہم کرنے میں خود کو سرگرم رکھااور اس طرح دہشت پسند حملوں کی منصوبہ بندی میں شامل رہا ۔فاروق کے بھائی کو بھی دہشت پسند میں فعال طور پر ملوث پایا گیا ہے۔ اس کا بھائی محمد امین بٹ عرف ہارون خوشیب ایک پاک تربیت یافتہ لشکر طیبہ (ایل ای ٹی) کا دہشت پسند ہے۔
محمد امین بٹ جواس وقت پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر سے کام کر رہا ہے ایک خطرناک دہشت پسند تھا۔ جو 1997 سے 2007 کے عرصے کے دوران سابق ڈوڈہ ضلع میں کام کر چکا تھا۔بٹ قتل کے تین مقدمات سمیت دہشت پسندی کے 10واقعات میں ملوث پایا گیا ہے ، اس نے 2007 میں پاکستانی زیر قبضہ کشمیر کی راہ لی تاکہ وہ تنظیمی معاملات میں کسی اہم عہد ے پر براجمان ہو۔
تشویش ناک امر ہے کہ یہ افراد کس طرح خفیہ ایجنسیوں کی لازمی جانچ پڑتال سے اب تک بچ گئے تھے ۔یا ایسے افراد کی ڈھال کون لوگ رہے یہ تحقیق طلب معاملہ ہے۔دوسری جانب کشمیر میں بھارت مخالف جذبات کے عنوان اور محرر کا نواسہ ایک اہم اور حساس عہدے پر فائزہ ہے جو اس ریاست کی سب سے بڑی ستم ظریفی ہے ۔ ایک جانب یہ خاندان اسی ملک کے آئین کی توہین کرتا ہے جس کا انتخاب وہ اپنی روزی روٹی کمانے کے لئے کرتا ہے ۔یہ کشمیری علیحدگی پسندوں کے دوہرئے رویئے کا ترجمان ہے ۔
انیس الاسلام بھارت مخالف سرگرمیوں میں مصروف تھا۔
محبوبہ حکومت نے گیلانی کو 2016 کی تحریک ختم کرنے کے لیے وحید پارا کے ذریعے ملازمت کی پیشکش کی
معتبر ذرائع اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ سرکاری ملازمت میں اپنی تقرری سے قبل، انیس الاسلام اپنے بھارت مخالف دوستوں کی ایک ٹیم کے ساتھ سری نگر شہر اور اس کے گرد و نواح میں ڈرون کی سہولیات فراہم کرتے تھے۔ ڈرونز کا استعمال امن و امان کے واقعات اور دیگر واقعات کی لائیو فوٹیج بنانے کے لیے کیا جاتا تھا جو کہ آئی ایس آئی کے ذریعے بھارت مخالف پروپیگنڈے کے لیے مواد کے طور پر استعمال کیے جا تے تھے۔
اس طرح کی سرگرمیاں واضح طور پر انیس الاسلام کے پوشیدہ ایجنڈے کی نشاندہی کرتی ہیں جو اس کے قریبی خاندان کے افراد کی ایماءپر انجام پا رہے تھے ،جس کامقصد جموں و کشمیر میں دہشت گردی کو ہوا دینے میں سب سے آگے تھے۔
انیس الاسلام 2016 میں محبوبہ مفتی کی حکومت کے دوران، ایس کے انٹرنیشنل کنونشن سینٹر (SKICC) میں ریسرچ آفیسر کی نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہوا، جو کہ جموں و کشمیر کے محکمہ سیاحت کا ایک ذیلی ادارہ ہے۔ وحید پرہ جو محبوبہ مفتی کا کلیدی معاون اور دست راست مانا جاتا ہے نے ،2016میں حزب المجاہدین کے دہشت پسند برہان وانی کی ایک پولیس مقابلے میں ہلاکت کے بعد وادی کشمیر میں پرتشدد احتجاج کو ختم کرنے کے بدلے گیلانی کے نواسے کو نوکری کی پیش کی ۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ حکومت نے ایک اشتہار جاری کیا جس میں ایس کے آئی سی سی میں ریسرچ آفیسر کے عہدہ کے لیے ایم بی اے کی ڈگری کے حامل امیدواروں سے درخواستیں طلب کی گئیں۔ تاہم گیلانی کے پوتے انیس الاسلام کے علاوہ کسی امیدوار کو انٹرویو کے لیے نہیں بلایا گیا۔ اس کے بعد انہیں اس عہدے کے لیے منتخب کیا گیا۔ ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ پہلے ہی مذکورہ پوسٹ پر بطور ایڈہاک اسٹاف ممبر کام کر رہا تھا۔
انیس الاسلام کی سیکیورٹی خدشات پر شک کے بادلوں کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے پاسپورٹ کے اجراءپر 2008 میں ریاستی انٹیلی جنس (سی آئی ڈی) کی جانب سے ‘سفارش نہیں کی گئی’ تھی۔ تاہم انتظامی خلا کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اور نظام کی کمزوریوں کے باعث انیس الاسلام اپنے ہتھکنڈوں میں کامیاب ہو گئے اور جموں و کشمیر کے معزز ہائی کورٹ کے حکم پر بیرون ممالک جانے کے لیے پاسپورٹ حاصل کر لیا۔
رووا شاہ
گیلانی کی نواسی اور انیس السلام کی بہن جو پیشے سے صحافی ہے ، علیحدگی پسند خاندان کے ذرائع ابلاغ کی وارث ہے ، وہ مختلف بین الاقوامی رسائل کے لئے لکھتی ہیں اور جنوبی افریقہ میں قائم ایک میڈیا ادارے ”سلام میڈیا“ میں ”روا شاہ“ شو کی میزبانی کرتی ہے۔ اس شو کے ذریعے سے وہ حکومت ہند کے خلاف بے بنیاد اعداد وشمار پیش کرکے بین الاقوامی سطح پر باضابطہ پروپگنڈا چلاتی ہے ۔روا شاہ جس نے حکومت ہند اور ریاستی فورسس کی حفاظت کے سائے میں پرورش پائی اور اپنا گھونسلہ اب ترکی میں بنایا ،جہاں سے وہ دنیا بھر میں بھارت مخالف بیانئے کی تشہیر کررہی ہے اور اس بیانئے کی قاید بھی ہے ،
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ 2015 سے بھارت مخالف کشمیری کارکنوں کی ایک بڑی تعداد نے ترکی میں پناہ حاصل کی ہے ، اور ترکی بھارت کے خلاف داستانی جنگ کا نیا مرکز بن گیا ہے۔ رووا شاہ نے اس سب کے دوران متاثرہ کارڈ کھیلا ،جہاں دوسری طرف اس کے بھائی نے ہندوستان میں سرکاری ملازمت کے مکمل فوائد کے ساتھ ریاستی سرپرستی بھی حاصل کی وہی دوسری جانب اس کی بہن رووا شاہ اپنے باپ اور دادا کے نظریات کو پھیلانے کے لیے خوشگوار پلیٹ فارم کے ذریعے میڈیا اور سوشل میڈیا کی مہارت کا استعمال کرتی آرہی ہے۔