ہم دیکھ رہے ہیں 

498

کشمیریوں کے نام پرچلنی والی تحریک،اپنی نہیں پرائی 

یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہورہی کہ کشمیر میں دہشت گرودں کی وحشیانہ اور بربریت کے خلاف غم وغصے کی لہرعوامی بیداری کا سبب بن رہی ہے اگر چہ یہ سب ابھی ہلکی جنبش ہے لیکن وہ وقت دور نہیں جب ان جابروں اور بربریوں کوکھدیڑ دیاجائے گا یہاں تک کہ وہ اپنے آقاوں کی گود میں پکے ہوئے پھل کی طرح گریں گے۔عوام اس خون خرابے اور دہشت پسندی سے اس قدر متنفر ہوچکے ہیں کہ وہ یہ کہہ رہے کہ’ بہت ہوچکا‘ میرے نام کا استحصال۔
 خوف کے سائے درست لیکن ایسی دہشت گردانہ کارروائیوں کو عام کشمیری نفرت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ کشمیریوں کی روح بے گناہ اورنہتے شہریوں کے بے دردانہ قتل پر ماتم کر رہی ہے۔ یہ سب دیکھ کر کشمیر درد میں بلک رہا ہے کہ مذہب ،ذات ،رنگ ونسل یا مسلک نہیں بلکہ بے راہ روی اور انتہائی بربریت کا مظاہرہ ہورہا ہے ۔کشمیری معاشرے میں اس گھناونے فعل نے جو اثرات مرتب کئے ہیں وہ ہمیں یقین دلانے کے لئے کافی ہے کہ یہ قوم زندہ و جاوید ہے ،جبکہ پاکستان ،جو منافرت میں اس قدر گھر چکا ہے اس کا یہاں حلقہ اثر روز بہ روز سکڑر ہا ہے، اور ان کا یہ حلقہ اپنی موت آپ مررہا ہے۔ مجموعی طور پرپورا کشمیر معاشرہ سوگ کی حالت میں ہے۔ کچھ خاموشی سے اس کا ماتم کر رہے ہیں۔ کچھ اظہار خیال کررہے ہیں۔ کچھ مشتعل ہیں، مگر سب سوگوار ہیں۔
گزشتہ دنوںشہر سری نگر کے عید گاہ میں اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے معصوم ، غیر مسلح شہری اساتذہ کے قتل نے کشمیری عوام کے اجتماعی ضمیر کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ دیر ہو چکی ہے ، لیکن امید زندہ ہے۔ اساتذہ کی انجمنوں سے لے کر سول سوسائٹی کی تنظیموں ، میڈیا اور سیاستدانوں تک ،ہر کوئی اس وحشیانہ قتل کی مذمت کر رہا ہے۔ نڈر سکھ برادری ہمیشہ کی طرح وحشیانہ قتل کے خلاف سڑکوں پر نکلنے میں پیش پیش رہی۔ اکثریتی برادری کو بھی اس کی پیروی کرنی چاہیے تھی۔
ہاں ، مذمت ہے، لوگ سوگوار بھی ہیں۔ لیکن ہمیں احتجاج کرنے اور یہ پیغام دینے کی ضرورت ہے کہ قتل میرے نام پر کبھی نہیں ہوئے تھے ،  نہ ہورہیے ہیں اور نہ ہی میں ہونے دوں گا۔
شاید ہر معاشرہ ایک مدت کے لیے تشدد کو قبول کرتا ہے۔  خاص طور پر جب معاشرے میں شکایات کی ایک لمبی فہرست موجود ہو۔ کشمیر میں تشدد انتہا کو پہنچ گیا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ کشمیری اس موقع پر اٹھیں اور تشدد کو اپنے تمام مظہروں میں مسترد کریں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم تشدد کے ان تمام جوازوں کو مسترد کردیں جو اس سے منسوب ہیں۔ یہ ہی فیصلہ ہمیں ایک زندہ معاشریوں اور زندہ انسان میں شمار کرائے گا

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here